صرف بائیکاٹ کافی نہیں ۔ سیرت کی تعلیم عام کریں

617

فرانسیسی صدر ماکرون اسلام فوبیا میں حد سے آگے بڑھ کر گستاخانہ خاکوں کی حمایت کر کے با قاعدہ جہالت پر اُتر آئے ہیں ۔ اُمت مسلمہ میں اس پر فطری طور پر اشتعال پیدا ہوا ہے ۔ جواباً کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا اور عوام اور حکومتی سطح پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے ۔ اب تک تو صرف ترک صد ر اردوان سامنے تھے لیکن اتوار کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا بیان بھی سامنے آیا اس کے بعد پیر کے روز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فرانس کے صدر کی گستاخیوں کے خلاف قرار دادیں منظور کی گئیں ۔یہ دونوں قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں اور اپنے نبی ؐ سے اظہار یکجہتی اورناموس رسالت کے لیے اتحاد کی دل خوش کن ساعات بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دیکھنے میں آئیں۔ سینیٹ میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ فرانس سے تعلقات منقطع کر کے فرانسیسی سفیر کو فوری طورپر ملک بدر کیا جائے اور فرانس کی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ سراج الحق نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ آج کے حالات میں او آئی سی کو فوری ایکشن لینا چاہیے ۔ یہ معاملہ امریکی و روسی بلاک اور سیاسی مفادات کا نہیںہے ۔ اگر اسلامی ممالک کے حکمراں اپنے نبی سے عقیدت کا اظہار نہیں کرسکتے اور کسی ریاست کی جانب سے با قاعدہ سرکاری سر پرستی میں توہین رسالت پر خاموش رہیں ۔ شان رسالت کا دفاع نہ کریں تو اس سے بڑی بد نصیبی اور کیا ہو گی ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ مغرب کی جانب سے ہر کچھ عرصے بعد توہین رسالت کی جرأت کیوں ہوتی ہے۔ اس کا سبب سینیٹر سراج الحق نے بیان کر دیا ہے کہ در اصل اُمت مسلمہ پر مسلط حکمران بے حس ہیں اور غیرت و حمیت سے عاری ہیں ۔جن کی اپنی زندگی سنت کے خلاف گزررہی ہو۔ جو اپنے ملک میں سنت کی پیروی نہ کرتے ہوں ۔ ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ اگر ان حکمرانوں نے اپنے نبی سے محبت کا عَلَم تھاما ہوا ہوتا تو فرانس، امریکا ،جرمنی یا چین و روس کسی کو ایسی گستاخی کی جرأت نہ ہوتی لیکن جب یہ مغربی حکمران دیکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں حکمراں اپنے نبی کی سنت پر عمل نہیں کرتے بلکہ سنت پر عمل کرنے والوں کے خلاف عمل کرتے ہیں تو پھر ان کو بھی ہمت ہوتی ہے۔ فرانس کے صدر ماکرون نے توہین آمیز خاکوں کی حمایت کی ہے ۔ سرکاری عمارتوں میں یہ خاکے چسپاں کیے جا رہے ہیںایسی صورتحال پر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر مشتاق نے کہا ہے کہ اگر افراد کی سطح پر توہین رسالت کے واقعات ہوں تو وہ افراد کا فعل قرار پائے گا لیکن اگر ریاست اس کی سر پرستی کرے تو یہ اعلان جنگ ہے ۔ ایسی صورت میں اُمت مسلمہ کے تمام ممالک پر لازم ہے کہ وہ اس اعلان جنگ کے جواب میںجنگ کی تیاری کریں ۔ اگر مگر اور مصلحتوں کی بات کرنا اور روا داری وغیرہ کے لالی پاپ تھمانا بالکل درست نہیں ۔ یہ عجیب رویہ ہے کہ ایسے معاملات میں پاکستان جیسے اسلامی ملک میں دانشور روا داری کے سبق پڑھانے لگتے ہیں ۔ وہ ان مغربی ممالک اور ان کے شیطانی ذہن والے حکمرانوں کو روا داری اور احترام کا سبق کیوں نہیں دیتے ۔ ابھی تو قومی اسمبلی اور سینیٹ نے قرار دادیں منظور کی ہیں لیکن یہاں بھی قرار داد پیش کرنے سے قبل اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تلخی نمایاں تھی جو ایک دوسرے پر جملے کسنے کے بعد بمشکل متفقہ قرار داد تک پہنچی ۔ یہ قرار داد منظور کر کے فرانس کے سفیر کو پہنچانے کا بھی فیصلہ ہوا ہے لیکن کیا فرانس کے سفیر کو قرار داد کی کاپی دینے سے مسلمانوں کے جذبات کا اظہار ہو جائے گا ۔ یہ کافی نہیں ہے بلکہ قرار داد کی کاپی فرانسیسی سفیر کے حوالے کر کے اسے فرانس واپس بھیج دیا جائے کہ جائو اور اپنے صدر کو یہ قرار داد دکھائو ۔ اس کے بعد اسی وقت واپس آنا جب ماکرون معافی مانگے ۔ فرانس کے سفیروں کو کچھ ممالک سے نکالا بھی جائے گااوراس کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا جائے گا ۔ لیکن یہ عمل وقتی اور جذباتی ہے اگر ناموس رسالت کا تحفظ کرنا ہے اور مستقل کرنا ہے تو اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اپنے اپنے ملکوں میں سنت کی تعلیم عام کرنا ہو گی ۔ خود سنت کی پیروی کرناہو گی ۔ نصاب تعلیم میں ایسے اسباق شامل کرنے ہوں گے جن سے امت کے نوجوانوں میں سنت سے آگہی پیدا ہو اور سرکاری اور نجی میڈیا کو بھی سنت نبوی کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہمارے حکمراں اپنی تشہیر کے لیے تو بھر پور طریقے سے سرکاری وسائل خرچ کر کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہیں لیکن آقائے دو جہاں کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنے میںان کی جان جاتی ہے ۔ اسلامی ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے ملکوں میں نصاب تعلیم میںبنیادی تبدیلیاں کریں ۔ اگر اسلامی ممالک کے حکمران ، ان کے ادارے ،جامعات، نوجوان سب سنت کی عملی تصویر بنے ہوئے ہوں ان کے سرکاری وفود جب بیرون ملک خصوصاً مغربی ممالک جائیں تو ان کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جائے کہ یہ لوگ کس کے ماننے اور چاہنے والے ہیں۔ اس کام کو ناممکن نہیں کہا جا سکتا ۔ بلکہ عام حکمرانوں کی بہ نسبت حالیہ برسوں میں دنیا نے وہ کچھ دیکھا ہے جو کسی کے تصورمیں نہ تھا جن طالبان کو امریکا اور پورا مغرب دہشت گرد قرار دیتا تھا ۔ طالبان کا لفظ آ جائے تو دہشت گردی ہی سمجھ میں آتی تھی ۔ بیس برس پٹنے کے بعد ان ہی طالبان کو پورے شرعی لباسوںمیں چہروںپر سنت نبوی ؐسجائے ہوئے وفود کا جھک جھک کر استقبال کرتے ہوئے امریکی ساری دنیا نے دیکھے ۔ طالبان نے تو کبھی رواداری کے نام پر سنت کو ترک نہیں کیا بلکہ سنت کو اپنانے اور عام کرنے سے ہی عزت ملے گی ۔ جو ممالک توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں اسلامی ممالک کی حکومتوں کو او آئی سی کے توسط سے مغرب ان ممالک میں وفود بھیجنے چاہییں جو ان ممالک کو انبیاء کے بارے میں بتائیں ان کی عصمت کے بارے میں بتائیں تاکہ اسلام کا پیغام بھی ان تک پہنچ سکے ۔