صدیوں کے فریبی

876

کبھی کبھار… نہیں بلکہ صحیح کہوں تو اکثر آپ کی رائے کو تبدیل کرنے کے لیے بے شمار کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ برائی، جھوٹ، مکرو فریب کو اتنے زیادہ لفافوں میں ملفوف کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ آپ اس کی ایک دو پرتوں ہی پر یقین کرلیتے ہیں کہ یہ چیز ٹھیک ہے لیکن آپ کے علم میں نہیں ہوتا کہ اس کے نیچے دراصل کئی اور پرتیں ہیں اور جو آخری ’پرت‘ ہے، وہ ایک جلی، سڑی ہوئی چیز ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا بہت کم دفعہ نہیں ہوا، بلکہ دنیا کے اوائل ہی سے اس کھیل کو کھیلا جارہا ہے۔ لیکن جوں جوں انسانی تمدّن ترقی کرتا گیا، اس کے مکرو فریب میں نکھار آتا گیا۔ ان معاملات میں انسان نے اللہ کی دی ہوئی نعمت ’زبان‘ کا استعمال بہت خوبی سے کیا۔
اگر میں انسانی تاریخ کے ایک مانوس ورق کو اُلٹ دوں اور آپ کو قریش کی وادی مکہ لے چلوں تو شاید زیادہ وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ سکیں۔ زبان وبیان کی خوبی کی بنا پر ہی اہل عرب محفلیں لُوٹ لیا کرتے تھے، اظہار کا سب سے عمدہ ذریعہ شاعری سمجھا جاتا ہے اور اس فن میں گویا اُنہیں کمال حاصل تھا اور جب نبوت کا دعویٰ ہوا تو اُس کی مخالفت میں اُنہوں نے اپنی فصاحت وبلاغت کے دریا بہا دیے، پروپیگنڈے کا ایک ایسا گھنائونا کھیل کھیلا گیا کہ نبی رحمتؐ اگر ایک نبی نہ ہوتے اور صرف مصلح ہوتے تو یہ پروپیگنڈا ان پر شدید ترین انداز میں اثر انداز ہوتا۔ دعوت اور اس کی قبولیت میں جھول رہ جاتا اور یہ جھول اس تحریک کو کبھی بین الاقوامی نہ بناتی بلکہ یہ ایک خطے تک محدود رہتی، یا شاید وہ بھی نہ رہتی۔ اللہ نے چوں کہ اپنے آخری نبیؐ سے وہ کام لینا تھا جسے آخر تک جاری رہنا تھا، اس لیے اس تحریک کی راہ میں پروپیگنڈے کے مکر وفریب، ریاکاری اور مکاری کسی کام نہ آئی۔ لیکن! جھوٹ اور مکاری… زبان وبیان کی طاقت سے آگے بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہی۔ اس عرصے میں خلافت سے ملوکیت کا سفر … بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دور سے لیکر شیخین کے دور تک جبکہ برصغیر میں مغل بادشاہوں تک کے دور کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے سبھی نے اقتدار، طاقت اور زَر کے حصول کے لیے زبان وبیان کی طاقت کا خوب استعمال کیا۔ علم وفضل کے نام پر بڑے بڑے ناموں نے حکمرانوں کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے علم کے دریا بہا دیے۔
آپ آج کی سیاست پر ایک نگاہ ڈالیے اور دیکھیے کہ یہ کھیل کس دھڑلے سے کھیلا جارہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کا ہی جائزہ لیں تو حیرت انگیز اعدادو شمار سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔ جھوٹ اور مکرو فریب کا صدیوں پرانا گھنائونا کھیل آپ کے سامنے آشکار ہوگا۔ طاقت کے حصول کے لیے زبان وبیان کے ذریعے وہ باتیں اور پروپیگنڈا کیا گیا جس نے ہر خاص وعام کے ذہن میں یہ بات بٹھادی کہ اس ملک میں ایک خاص پارٹی ایمان دار ہے اور باقی ساری پارٹیاں چوروں اور لٹیروں کی ہیں [یہ آدھا سچ ہے] جبکہ ہماری خاص ایمان دار پارٹی انسانی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس ایمان دار پارٹی کے پاس ارسطو اور سقراط ٹائپ لوگ ہیں، جو اقتدار سنبھالتے ہی اس ملک کے تمام دلدّر دور کردیںگے۔ زخموں پر پاہا رکھیں گے اور ملک میں ظلم وزیادتی کا جو بازار گرم ہے اسے روک کر انصاف کا نظام قائم کریں گے۔ یہاں آپ دیکھیے کہ اظہار کی قوت کا استعمال کس خوبی سے کیا گیا کہ جب کوئی عام آدمی ان کی تقریر سنتا تو سمجھتا کہ یہ اس قوم کے حقیقی غم خوار ہے، یہی ہیں جو ہمارا ’کھچاڑا‘ نظام بدل دیں گے۔
لیکن… صدیوں سے جاری مکرو فریب کے اس گورکھ دھندے سے بھلا کون بچ پایا ہے جو اب یہاں کے کم پڑھے لکھے اور ہوشیار لوگ بچ جاتے۔ طرفہ تماشا یہ کہ صرف عام لوگ اس جھوٹ سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ بے شمار سمجھ دار لوگ بھی ان کے جھانسے میں آگئے اور اُنہیں سمجھ دار لوگوں ہی نے پھر لوگوں کو بتایا کہ قوم کے حقیقی مسیحا یہی ہیں۔
موجودہ حکومت نے آتے ہی معیشت معیشت اور تباہی تباہی کا راگ ایسا الاپا کہ لوگ دو اور دو گننے لگے۔ نظامِ انصاف سے لیکر گلی محلے کے انتظامی مسائل جوں کے توں رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں صرف پیسوں کی کمی کا مسئلہ ہے ورنہ باقی تمام مسائل تو حل ہو چکے ہیں یا پھر وہ تھے ہی نہیں… اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی انتظامی بنیادیں کمزور ہونے لگیں۔ نظامِ انصاف کی دھجیاں یوں بکھیری گئیں کہ طاقت ور اداروں نے اُسے اپنے گھر کی لونڈی بنالیا کہ جیسا چاہا سلوک کیا، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سانحہ ساہیوال اس کی بڑی مثال ہے جس میں نہتے اور بے گناہ فیملی کو دن دہاڑے بھون دیا گیا، ظلم پھر ظلم یہ کہ دو معصوم بچوں کے سامنے ان کے خاندان کو ختم کردیا گیا۔ ظلم کا یہ سلسلہ رُکا نہیں۔ جب طاقت ور طبقے نے قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ کیا تو پھر اس ملک کے ہر گلی کوچے میں قتل وغارت گری کی کہانی دہرائی جانے لگی۔ زنا بالجبر کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ جوان عورتوں کو تو چھوڑیے… ڈھائی سال سے لیکر دس سال تک کی بچیاں اور بچے ہوس کا نشانہ بننے لگے۔ اس ملک کے طول وعرض میں یہ سلسلہ ایسا لگتا ہے کہ منظم انداز سے چل رہا ہے۔ ظلم وستم کے اس دور میں صرف اور صرف آپ کو ایک ہی لفظ سنائی دے گا۔ ملکی معیشت۔
زبان کا استعمال اسی طرح سے کیا جارہا ہے، جیسے برسوں پہلے کیا جاتا تھا۔ برائی، اپنے جھوٹ اور فریب سے اچھائی کو پیچھے دھکیلتی ہے، خود کو اچھائی بتاتی ہے۔ انسان کو متذبذب کرتی ہے کہ وہ برائی کو بُرا نہ سمجھیں۔ یوں سمجھ لیں کہ باطل کو حق بناکر پیش کیا جارہا ہے اور اُسے مان بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن…! یہاں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ باطل جتنی ہی ملمع کاری کرکے حق کے سنگھاسن پر براجمان ہو، ایک دن اس کا راز آشکار ہو ہی جاتا ہے۔ جھوٹ کا پردہ چاک ہو ہی جاتا ہے۔ زبان کا استعمال کرتے ہوئے آپ چاہے جتنی فصاحت وبلاغت کے ساتھ جھوٹ کہتے رہیں، مکرو فریب کے جال بُنتے رہیں۔ آپ کا جالا ہمیشہ مکڑی کا جالا ثابت ہوتا ہے۔ وہ زیادہ دیرپا اور پائیدار نہیں ہوتا۔ ایک جھاڑن ہی اس کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔
صدیوں سے آئی اس روِش کو آپ آج اپنی سیاست پر منطبق کرکے دیکھیے، یہ سلسلہ آج کا نہیں ہے۔ یہ صدیوں کا فریب ہے۔ جو لوگوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ ہوشیار اور سمجھ دار قومیں ایسے فریبیوں کا آغاز ہی میں ٹینٹوا دبا دیتی ہے۔ اسے پھلنے اور پھولنے نہیں دیتی۔ اس کی جڑ کاٹ کر پھینک دیتی ہے لیکن ہمارے جیسے لوگ ان فریبیوں کے فریب میں آکر ناچتے، مٹکتے ہوئے پولنگ بوتھ جاتے ہیں اور اُنہیں اختیار دے دیتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنا ظلم وستم پانچ سال تک جاری رکھیں۔
صدیوں سے جاری اس ظلم وستم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جیسے ہی آپ کو اندازہ ہوجائے کہ جس شخص کو آپ سب سے ایمان دار سمجھ کر اپنے اُوپر مسلط کرچکے تھے، وہ تو ایک فریبی ہے۔ فوراً سے پہلے ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے ایسے شخص کو نکال باہر کرنا چاہیے۔ ایسے شخص کا ایک دن بھی آپ پر مسلط رہنا ظلم ہے۔ ظلم ہے اور یقینا ظلم ہے۔