رنج و غم کے اسلامی اصول

792

یا کی زندگی میں کوئی بھی انسان رنج و غم، مصیبت و تکلیف، آفات و نا کامی اور نقصان سے بے خوف اور مامون نہیں رہ سکتا البتہ مومن اور کافر کے کردار میں کچھ فرق ضرور ہے۔ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھتا، مایوسی کا شکار ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ دیتا اور بعض اوقات غم کی تاب نہ لا کر خودکشی کر لیتا ہے مگر مومن بڑے سے بڑے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و ثبات کا پیکر بن کر چٹان کی طرح جما رہتا ہے۔
جب بھی کوئی دکھ یا تکلیف پہنچے یا غم کی خبر سنیں تو فوراً ہمارے نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے: ’’جب کوئی بندہ مصیبت پڑنے پر انا للہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت دور فرما دیتا ہے۔ وہ اس کو اچھے انجام سے نوازتا اور اسے اس کی پسندیدہ چیز صلے میں عطا فرماتا ہے‘‘۔
تکلیف اور حادثے پر اظہار غم ایک فطری امر ہے البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ غم و اند وہ کی انتہائی شدت میں بھی زبان سے کوئی نا حق بات نہ نکلے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ غم کی شدت میں دھاڑیں مار مار کر رونا، گالوں پر طمانچے مارنا،چیخنا چلانا اور غم میں سینہ کوبی کرنا مومن کے لیے کسی بھی طرح جائز نہیں۔
ہمارے نبی ؐ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص گریبان پھاڑتا، گالوں پر طمانچے مارتا، جاہلوں کی طرح چیختا چلاتا اور بین کرتا ہے، وہ میری امت میں سے نہیں‘‘۔ (ترمذی)
جب حضرت جعفر طیار ؓ جنگ موتہ میں شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو ان کے گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں۔ اس پر حضور اکرم ؐ نے کہلا بھیجا کہ ایسا نہ کیا جائے مگر وہ باز نہ آئیں۔ آپ ؐ نے دوبارہ منع فرمایا پھر بھی وہ نہ مانیں تو آپ ؐ نے حکم دیا کہ ان کے منہ میں خاک بھر دو۔
(بخاری شریف)
غم کی کیفیت میں آنکھوں سے آنسو بہنا اور عزیز رشتے داروں کی موت پر غمزدہ ہونا فطری امر ہے لیکن سوگ منانے کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ہے:
’’ایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے البتہ بیوہ کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔ اس مدت میں نہ وہ کوئی رنگین کپڑا پہنے نہ خوشبو لگائے اور نہ کوئی بنائو سنگھار کرے۔ (ترمذی)
جب کبھی بیمار ہو جائیں تو بیماری کو برا بھلا نہ کہیے اور نہ کوئی حرف شکایت زبان پر لائیے بلکہ نہایت صبر وضبط سے کام لیجیے اور اجر آخرت کی تمنا کیجیے۔ بیماری جھیلنے اور اذیتیں برداشت کرنے سے مومن کے گناہ ڈھلتے ہیں اور آخرت میں اجر عظیم ملتا ہے۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد گرامی ہے:
’’مومن کی جسمانی اذیت یا بیماری یا کسی اور وجہ سے اُسے جو دکھ پہنچے، تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو یوں جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے کو جھاڑتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، مسلم)
دکھ درد اور رنج و غم میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کیجیے۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے:
’’جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی، تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا خود مصیبت زدہ کو‘‘۔ (ترمذی)
مصائب کے نزول اور غم کے ہجوم میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیجیے اور نماز پڑھ کر نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کیجیے۔ قرآن پاک میں ہے:
’’مومنو! مصائب اور آزمائش میں صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ (البقرہ ۱۵۳)
رنج و غم کی شدت، مصائب کے نزول اور پریشانی اور اضطراب میں یہ دعا پڑھیے جو حضرت یونس ؑ نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے پروردگار سے فرمائی تھی:
ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو بے عیب اور پاک ہے، میں ہی اپنے اوپر ظلم ڈھانے والا ہوں۔ (سورۃ انبیا ۸۷)
جو مسلمان بھی اپنی کسی تکلیف یا تنگی میں اللہ سے یہ دعا مانگے، اللہ اسے ضرور قبولیت بخشتا ہے۔