چاندنی وہ چاندنی

227

ماں کی یاد میں
اماوسوں کی رات میں
چاندنی کا روٹھنا
کوئی نہیں ہے
بات کیا
نہ ہےیہ معاملہ عجب
نئے سرے سے پھر یوں ہی
کوئی نوید ماہ نو
ہلال بن کے کھل اٹھے
آنگن حیات میں
چاندنی کے قافلے
نئے سفر پہ چل پڑے
سدا سے ہے یہ سلسلہ
تھما رہا یا چل دیا
مگر یہ اب کہ کیا ہوا
گزر گیا جو سانحہ
چاندنی دعا تھی جو
چاندنی ردا تھی جو
زندگی کے روپ میں
خدا کی ایک عطا تھی جو
عطائے بے بہا تھی جو
اماوسو ں کی رات میں
زمین میں جا کے چھپ گئی
نہ دکھ سکے گی پھر کبھی
شب ہجر طویل ہے
کٹھن بہت ہے مرحلہ
یقین مگر خدا پہ ہے
خدا کی ہی رضا پہ ہے
وہی تو دے گا حوصلہ
شب ہجر کا صبر بھی
میری دعا کا اثر بھی
بنے گا ایک روشنی
چھٹے گی غم کی تیر گی وصال رب کے نور سے
رضائے حق کے روپ میں
کھلے گی پھر سے چاندنی
ہاں چاندنی وہ چاندنی
اسماء صدیقہ