ماں کی یاد میں
اماوسوں کی رات میں
چاندنی کا روٹھنا
کوئی نہیں ہے
بات کیا
نہ ہےیہ معاملہ عجب
نئے سرے سے پھر یوں ہی
کوئی نوید ماہ نو
ہلال بن کے کھل اٹھے
آنگن حیات میں
چاندنی کے قافلے
نئے سفر پہ چل پڑے
سدا سے ہے یہ سلسلہ
تھما رہا یا چل دیا
مگر یہ اب کہ کیا ہوا
گزر گیا جو سانحہ
چاندنی دعا تھی جو
چاندنی ردا تھی جو
زندگی کے روپ میں
خدا کی ایک عطا تھی جو
عطائے بے بہا تھی جو
اماوسو ں کی رات میں
زمین میں جا کے چھپ گئی
نہ دکھ سکے گی پھر کبھی
شب ہجر طویل ہے
کٹھن بہت ہے مرحلہ
یقین مگر خدا پہ ہے
خدا کی ہی رضا پہ ہے
وہی تو دے گا حوصلہ
شب ہجر کا صبر بھی
میری دعا کا اثر بھی
بنے گا ایک روشنی
چھٹے گی غم کی تیر گی وصال رب کے نور سے
رضائے حق کے روپ میں
کھلے گی پھر سے چاندنی
ہاں چاندنی وہ چاندنی
اسماء صدیقہ