بوسیدہ نظام عدل و انصاف…

1176

کسی بھی معاشرے کی بقا و ترقی کا انحصار عدل و انصاف پر ہوتا ہے۔ عادل معاشروں میں ہر شخص کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوتی ہے، جس کی بنا پر ہر شخص اپنے تمام امور اس یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے کہ نہ تو اس کی حق تلفی ہوگی اور نہ ہی اس سے امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں ملک میں امن و سلامتی پیدا ہوجاتی ہے اور معاشرہ خوب ترقی کرتا ہے۔ لیکن جس ملک سے عدل و انصاف ناپید ہوجائے تو اس معاشرے کا انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
پاکستان میں پائی جانے والی کرپشن، لوٹ کھسوٹ، رشوت، ڈاکے، زنا، حق تلفی وغیرہ سب کی سب ظلم و ناانصافی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ملک اور اس کے اداروں کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص انصاف پرور بنے اور اہل عدل کا ساتھ دے۔ خود ظلم کرنے سے بچے اور ظالموں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ چنانچہ لازم ہے کہ وہ عدل و انصاف کو اپنائے کیوں کہ اس کے سبب ہی حقیقی معنوں میں، وطن عزیز کا معاشرتی، معاشی، سیاسی، عدالتی، تعلیمی، دفاعی نظام اعلیٰ اخلاقی و سماجی صلاحیتوں کا حامل ایک مضبوط سے مضبوط تر معاشرہ ہوگا بلکہ مکمل معاشرتی امن و سلامتی اور انفرادی و اجتماعی مفادات کا تحفظ بھی اسی میں مضمر ہے۔ جہاں عوام کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اپنے سوچنے، سمجھنے اور دیکھنے کے انداز کو بدلنا ہوگا وہیں اس سے بڑھ کر ذمے داری ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی سابقہ روش بدلیں اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں تاکہ ملک کو اس کے بنیادی اغراض و مقاصد کے تحت چلایا جاسکے اور ملک کو ترقی اور عروج حاصل ہو جبکہ عوام خوشحال و فلاح یاب ہو، اس کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ ہر ادارے کو، خواہ وہ عدلیہ ہو، مقننہ ہو یا انتظامیہ، ربِّ ذوالجلال کے حضور جواب دہی کا ہر وقت احساس رکھنا ہوگا، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ: ’’اور عدل کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (سورۃ الحجرات) ایک عادلانہ معاشرے کی یہی سب سے مضبوط اساس ہے، لیکن جب معاشرہ اسی اساسِ عدل کو گرانے پر آمادہ ہو، جواب دہی کا احساس ربّ ذوالجلال کے سامنے تو دور کی بات، خود اپنے اصول و قواعد اور قانون و آئین کے سامنے بھی نہ رہے تو ظلم اور ناانصافی کا وہ معاشرہ سامنے آتا ہے جو آج کے پاکستان کا معاشرہ ہے۔ معاشرے ترقی اور خوشحالی کے بغیر چل سکتے ہیں، لوگ بھوک اور غربت میں رہ سکتے ہیں، لیکن ناانصافی اور عدل سے انحراف افراد ہوں یا معاشرہ، دونوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔
جس طرح اس کائنات کا پورا نظام عدل پر قائم ہے اور کائنات میں تمام کام احسن طریقے پر چل رہے ہیں اگر ان میں ذرا سا بھی عدل باقی نہ رہے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور شاید وہی قیامت کا دن ہوگا۔ اسی طرح انسانی معاشروں کو بھی عدل و انصاف پر قائم کرنا لازم ہے وگرنہ معاشرہ بغیر عدالتی نظام کے نہیں چل سکتا تو پھر ضروری ہے کہ انسانی سماج اور نظام حیات بھی عدالت اور توازن کے مستحکم ستونوں پر استوار ہو، تاکہ تباہی و بربادی سے محفوظ رہ سکے۔ انسانی معاشرے کی اسی ضرورت کے پیش نظر، اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کو بھیجا ہے۔ ’’ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات لیقوم الناس بالقسط‘‘ یعنی: ہم نے واضح دلائل کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کیا، تاکہ انسانی سماج میں عدالت کا قیام ہوتاکہ معاشرے کا نظم و نسق بہترین انداز سے چل سکے۔
حکومتی ادارے اپنے اختیارات اللہ تعالیٰ کی متعین حدود کے اندر رہ کر ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ آئین کے زیر سایہ اعلیٰ عدالتوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون کی تشریح کریں اور انتظامیہ و مقننہ کے اقدامات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی روشنی میں پرکھیں۔ آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کی ذمے داری تمام حکومتی، عوامی نمائندگان اور منتخب عوامی نمائندگان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ بدعنوانی بہت بڑا خطرہ ہے خواہ مالی ہو یا اختیاراتی جس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہے اسی سے اعلیٰ عدلیہ کی ذمے داری، دائرۂ عمل اور عوامی توقعات پر پورا ہونے کا بھی اظہار و اطلاق ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بدعنوانی بلاشبہ اس ربط و تعلق کو توڑنے، اسے عدمِ توازن سے دوچار کرنے اور اس کا انکار کرنے کے قولی و عملی اقدامات سے ابھرتی ہے، لیکن یہ
بدعنوانی پاکستانی معاشرے یا قوم کا مقدر نہیں۔ ایک طبقہ، جس کا بہت بڑا حصہ حکمرانوں پر اور ذرائع ابلاغ کے بعض مفاد پرستوں پر مشتمل ہے، پاکستان کے عوام کو باور کرا رہا ہے کہ یہی سب کچھ تمہارا مقدر ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ پورے معاشرے کا کام ہے جس کی محض اعلیٰ عدلیہ سے سو فی صد توقع بھی ناانصافی کہی جا سکتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں تو اسے بھی قوم کا مقدر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔ (النسا)
عدل کی دھجیاں اڑانے والوں کے لیے ربّ العزت نے قرآن کریم میں سخت وعید کا اعلان فرمایا ہے، ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں‘‘۔ (المائدہ، 5:44)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ، 5:45)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (المائدہ، 5:47)
یعنی جو لوگ ربّ العزت کے بیان کردہ واضح احکامات و ہدایات کو پس پشت ڈال کر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ لوگ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔ اتنی سخت وعیدیں، اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے اور دنیا و آخرت میں ہر قسم کے نقصان و خسارے سے محفوظ فرما کر عدل و انصاف کی فراوانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
شومی ٔ قسمت کہ اتنی سخت تہدید کے باوجود آج ظالم بننے کو باعث افتخار اور عادل بننے کو باعث رسوائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہم اس معاشرہ میں اس تلخ حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں کہ یہاں پر ظالم اور منافق شخص کو عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے جب کہ انصاف پسند اور حقیقت شناس انسان کو ذلت و اہانت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ظلم بالائے ظلم کہ جو عدل و انصاف کی مسند پر براجمان ہیں یا جو انصاف دلانے کے علم بردار ہیں وہی آئے روز انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
آیئے ہم سب ملکر عہد کریں کہ آئین کی پاسداری کریں گے اور زندگی کے تمام امور عدل و انصاف کے ساتھ پورا کریں گے، نجی یا حکومتی اداروں میں سفارش، اقربا پروری سے پرہیز کریں گے، تمام امور صالح اور با صلاحیت شہریوں کے ہاتھوں میں دیں گے اور کبھی عدل کو نظر انداز نہیں کریں گے، چاہے اس میں ہمارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو اور قرآن کے درج بالا احکامات کی پاسداری کریں گے۔