دین کا انفسی احیا (آخری حصہ)

947

جب زوال آتا ہے تو قوم سب سے پہلے اپنی طاقت کے مراکز میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔ تہذیب ٹوٹتی ہے، اس کے بعد معاشرتی ادارے ٹوٹتے ہیں یعنی معاشرت انسانی نہیں رہ جاتی، ریاست ٹوٹتی ہے اور پھر بالآخر فرد مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ فرد کی آخری بیماری بہت طویل ہوتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے امراض تھوڑے ہی وقت میں موت پر منتج ہوجاتے ہیں لیکن فرد کو مرنے میں دیر لگتی ہے۔ اب احیائِ اسلام اور تجدیدِ دین کا ہر کام فرد کو زندہ رکھنے یا کرنے کی کوشش سے شروع ہوگا۔ فرد کے احیا کا منصوبہ ایسا ہوتا ہے جس میں تہذیب کی تمام رہی سہی قوتیں شریک ہوسکتی ہیں اور اپنے حصے کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ریاست و معاشرت کی تجدید میں توبہت سی پیشگی شرائط (pre qualifications) ہوتی ہیں جو سب لوگوں کو شامل نہیں ہونے دیتیں۔ تو آج یوں لگتا ہے کہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اپنے دین کے (micro cosmic) یعنی انفسی احیا کی ایک جذبہ ٔ انقلاب کے ساتھ کوشش کرے۔ اس کوشش سے کوئی بھی معذور نہیں ہے۔ یہ عذر تو مانا جا سکتا ہے کہ ریاست اور معاشرت غیر اسلامی ہے مگر میں کچھ کر نہیں سکتا۔ لیکن یہ بہانہ نہیں سنا جا سکتا کہ خود میرے اندر کی دنیا غیر دینی ہے مگر میں مجبور ہوں۔ اپنے زیرِ تصرف باطن کا نظام اگر اب بھی غیر دینی رکھا تو ڈر ہے کہ فردِ مسلم بھی دنیا سے غائب ہوجائے گا۔ پھر اللہ نہ کرے خود کو یہ تسلی دینا بھی ممکن نہ رہے گا کہ دو چار سچے مسلمان دنیا کے فلاں گوشے میں موجود ہیں جن کے بارے میں اعتماد سے کہا جا سکے کہ دیکھ لو یہ ہیں
اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوئی شخصیتیں۔ تو بھائی، ہمیں اسی وقت کمر کس لینی چاہیے اور کام کا آغاز یہاں سے کرنا چاہیے کہ اپنے آپ کو خدا کا بندہ اور رسول اللہؐ کا سچا امتی بنانا ہے۔ احیاے دین کا ہر کام یہیں سے شروع ہوتا رہا ہے، یہیں سے ہوگا۔ خود کو بدلو گے تو دنیا میں تبدیلی آئے گی۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہماری تبلیغی یا انقلابی تحریکوں میں، مدرسوں میں اور خانقاہوں میں ایک خزاں سی چھائی ہوئی ہے، ایک بے برکتی سی طاری ہے۔ اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ ہم دین کے ترجمان تو بن بیٹھے، اس کا مظہر نہیں بنے۔ دین یقینا اپنی ترجمانی بھی طلب کرتا ہے لیکن اپنا مظہر بننے کے بعد۔ سادہ سی بات ہے، میں خود اللہ کا بندہ بنوں، شخصیت کو چلانے والے پورے مکینزم میں بندگی کے اصول کو مؤثر رکھوں، عمل سے اسے نتیجہ خیز بناؤں اور خیالات سے اس کو تسلسل دوں۔ یہ ہے وہ ذمے داری جس کی طرف مجھے ہر کام سے پہلے متوجہ ہونا ہے ورنہ تو سب مذاق ہے اور نفاق ہے۔ اپنے نفس پر اللہ کی حاکمیت نہیں ہے اور ہم چلے ہیں پاکستا ن پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے! اور اللہ کا محکوم ہونے کی لازمی نشانی یہ ہے کہ بندہ چیزوں پر غالب آجاتا ہے۔ نفس کو اللہ کی حکومت میں دینا سب سے بنیادی انقلابی عمل ہے۔ اللہ کا محکوم کسی بے دست وپا انفعالیت کا شکار نہیں ہوتا، یہ کوئی گوشہ گیر وجود نہیں ہوتا۔ اللہ کا محکوم اس حکم کو جس نے اس کو مسخر کر رکھا ہے، تسخیرِ دنیا کا سبب بھی بناتا ہے۔ جس قوت سے بندہ خود کو اللہ کا محکوم بناتا ہے وہی قوت دنیا کی تسخیر میں بھی درکار ہے۔ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اندر کی دنیا اللہ والی ہو اور باہر کی دنیا اللہ سے خالی رہ جائے۔ اس لازمی ترتیب کو نظر انداز کرنے کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کی ہوا بھی اللہ سے دور لے جاتی ہے۔ کم ازکم مجھے تو اس بات پر کوئی شبہ نہیں ہے کہ جدید دنیا کی ایک ایک چیز اللہ سے دوری کا سامان ہے اور جدید زندگی اللہ سے لاتعلقی کا میدان ہے۔ اور ایسا ہونے میں ہماری مجرمانہ غفلت کا بہت ہاتھ ہے کہ آج دنیا میں انفرادی اور اجتماعی ترقی دین سے فاصلہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس دنیا میں ترقی اور خوش حالی کے جتنے اسباب ہیں وہ دین سے غیر مانوس کرنے اور اسے اجنبی بنانے کا کام کرتے ہیں۔ تو بھائی، اس پورے نظامِ حیات کو اپنے اندر سے خارج کر کے اب اللہ کے لیے جینا سیکھو۔ میری پیاس بھی اللہ کے لیے ہے اور میری سیرابی بھی، میری کمزوری بھی اللہ کے لیے ہے اور طاقت بھی۔ جدید زندگی نے اس عزمِ وجود کو توڑ دیا ہے اور آج مسلمانوں نے بھی اس زندگی کو قبول کر لیا ہے جسے اللہ سے منہ موڑے بغیر نہیں گزارا جا سکتا۔ ہم زہریلے پانی کی مچھلیاں بننے پر راضی ہیں اور اس سے نکلنے کی خواہش ہی نہیں رکھتے تو کوشش کیا کریں گے۔ لیکن بہرحال اس زہریلے تالاب سے نکلنا تو ہے۔ اور اس سے نکلنے کی کوشش ہمارے لیے ناگوار تو ہو سکتی ہے لیکن اس میں کوئی بڑی مشکل اور بڑا مجاہدہ نہیں ہے۔کوئی بڑی قربانی اور بڑا ایثار بھی نہیں ہے جس سے ڈر کر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ سارا کام بس اتنا سا ہے کہ ہمارے ماتھے پر بندۂ دنیا لکھا ہوا ہے، اسے مٹا کر بندۂ خدا لکھوانا ہے اور پھر تھوڑی تھوڑی دیر بعد آئینے میں دیکھتے رہنا ہے کہ بندۂ خدا کی عبارت مدھم تو نہیں پڑی۔ آپ سمجھ گئے ناں، صرف اپنے ذہن میں اپنی شناخت بدلنی ہے اور اس شناخت کو محفوظ رکھنا ہے، پھر ان شاء اللہ ایک عالم گیر انقلاب کی بنیاد پڑنی شروع ہوجائے گی۔ سرِ دست تو ہماری یہ حالت ہے کہ نماز کے وقت بھی اس ادراک کا غلبہ نہیں ہوپاتا کہ ہم بندۂ خدا ہیں۔ ہمیں اپنا افسر ہونا، ماتحت ہونا، تاجر ہونا، بیمار ہونا، صحت مند ہونا یہ سب رہ رہ کر محسوس ہوتا رہتا ہے مگر یہ بات کہ ہم سب سے پہلے اللہ کے بندے ہیں، رسول اللہؐ کے امتی ہیں، اگر ذہن میں آتی بھی ہے تو بہت تکلف اور تصنع کے ساتھ۔ دنیا کا، اولاد کا یا خود اپنا خیال ذہن میں آجائے تو ہمارے متعلقہ احساسات بیدار ہو جاتے ہیں، لیکن دین کے ساتھ ہمارے احساسات کا کوئی بامعنی تعلق کم ہی رہ گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ کی یاد آتے ہی اس سے وابستہ احساساتِ عبودیت اور جذباتِ بندگی ہمارے اندر بیدار ہوجائیں مگر ایسا ہو نہیں رہا۔
تو بھائی، اللہ کی بندگی میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اپنے باہر کی دنیا کے ساتھ اور اپنے اندر کی دنیا سمیت۔ کم ازکم یہ ارادہ تو کر ہی لینا چاہیے کہ ہمیں بس اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے اور اپنی تمام حیثیتوں کا تعین اسی بندگی سے کرنا ہے۔ آدمی کی ایک اصولی شناخت ہوتی ہے جس سے اس کی ذہنی شناختیں کنٹرول ہوتی ہیں، ایک دائرے میں آجاتی ہیں اور ایک فعال کل کے اجزا بن جاتی ہیں۔ تو بندگی ہی وہ اصولی اور کلی شناخت ہے جس میں میری تمام شناختیں گندھی ہوئی ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ گنا ہ سے بچو، پھر شبہے والی چیزوں سے بچو، پھر نیکی میں ترقی کرو۔ گناہ سے بچنے کے لیے اخلاص ضروری ہے اور نیکی میں آگے بڑھنے کے لیے محنت ضروری ہے۔ اخلاص کا عملی ماڈل وفاداری ہے لیکن وفاداری کا تصور ہی اب بہت کم یاب ہوگیا ہے۔ گناہ سے وہی بچے گا جو صاحبِ اخلاص ہوگا، نیکی میں وہی ترقی کرے گا جو محنتی اور چست ہوگا۔ آج ڈ پریشن وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ اس کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آئے ہوئے ہیں جو ماشاء اللہ بہت مخلص اور نہایت دین دار ہیں۔ یہ مجرب بات عرض کر رہا ہوں کہ ڈپریشن وغیرہ سے بچنے کے لیے بھی سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آدمی اپنی نظر انداز شدہ قوت ِ ارادی کو دریافت اور بحال کرے۔ ارادہ، یکسو ارادہ ایک ایسی قوت ہے جو ناکامیوں کے باوجود ڈپریشن سے محفوظ رکھتی ہے۔ ارادے میں یکسوئی ہو اور مراد تک پہنچنے میں مشکلات اور ناکامیاں پیش آئیں تو بھی انسان ڈپریشن سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ آدمی اپنے نفس کے تاریک حصوں کی لپیٹ میں آجائے اور اس کے اندر ایک گہری دھند چھا جائے تو یہ ڈپریشن ہے، جبکہ ارادہ سورج کی طرح ہوتا ہے جو تاریکی اور دھند کو غائب کردیتا ہے۔ ڈپریشن سوچنے سے نہیں ، کچھ کرنے سے ختم ہوتا ہے۔ گناہ سے بچنے کی ذمے داری لینے والوں کو اس طرف سے خبردار رہنا چاہیے کہ بعض اوقات حالات اور تجربات کی وجہ سے آدمی یہ ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کئی گناہوں سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہاں پہنچ کر ڈر ہے کہ دل میں گناہ کی کراہت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اس سے بچنے کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ گناہ کی دو بڑی بڑٰ ی قسمیں ہیں، ایک لغزش اور دوسری نافرمانی۔ لغزشوں سے مکمل بچاؤ ممکن نہیں ہے، جب تک ہم زندہ ہیں ہم سے لغزش ہوتی رہے گی۔ یہاں بس یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ لغزش عادت نہ بن بنے اور اس پر استغفار ضرور کیا جائے، اور اگر اس کا ازالہ کرنا، اس کا کفارہ دینا ضروری ہو تو اس میں دیر نہ کی جائے۔
عموماً لغزشیں غیر ارادی ہوتی ہیں لیکن اگر ارادہ شامل بھی ہو تو تلافی اور استغفار اسے جی کا روگ نہیں بننے دیتا اور آدمی کو مسلسل احساسِ جرم سے بچائے رکھتا ہے۔ لیکن نافرمانی میں ارادہ اور شعور پوری طرح شامل ہوتا ہے۔ نافرمانی کی بڑی نحوست یہ ہے کہ اللہ کا خیال بھی آجائے تو آدمی اسے ناگواری کے ساتھ ذہن سے جھٹک دیتا ہے۔ تو جب یہ کہا جاتا ہے کہ گناہ سے بچو تو اس میں بنیادی بات یہی ہوتی ہے کہ نافرمانی سے بچو، اس نافرمانی سے جو جان بوجھ کر کی جاتی ہے اور جسے اپنی عادت بنا لیا جاتا ہے۔