مسلمانوں کے ساتھ مغرب کا متشدد اور منافقانہ رویہ

945

رسول آخرالزماں محمدؐ وہ ہستی ہیں جو ساری کائنات کے لیے واجب الاحترام ہیں جن کے ادب و احترام اور گفتگو کے آداب اور سلیقہ قرآن میں سکھایا گیا جو تا ابد قائم و دائم رہے گا۔ آپؐ کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ آپ کے ہر عمل اور طور طریقے کو قیامت تک وہی حرمت و عظمت حاصل ہے جو چودہ سو سال قبل آپؐ کی حیات طیبہ میں حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ لیکن یہ بات بھی اللہ کی طرف سے کہہ دی گئی کہ تمام رسولوں پر لازمی ایمان لانا ہے کہ وہ ہادیِ برحق تھے اور انسانیت کی ہدایت کے لیے معبوث ہوئے بلکہ قرآن تو مسلمانوں کو یہ رواداری سکھاتا ہے کہ تم غیر مذہب کے مذہبی رہنمائوںکو بُرا بھلا نہ کہو۔ یہ رواداری اسلام نے سکھائی ہے کہ تم اگر کسی معاشرے میں اکثریت ہو تو وہاں رہنے والے اقلیت یعنی کفار کی حفاظت کرو اس طرح ان کے گرجوں اور معبد خانوں کی حفاظت بھی اسلام نے اپنے ذمے لی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام میں کسی کو زور اور زبردستی سے داخل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی اقلیت خوش دلی سے اسلام قبول کرے تو کرے ورنہ ساری اقلیتیں اپنے مذہب پر عمل پیرا رہیں۔
یہ ہے رواداری جو اسلام نے اہل ایمان کو سکھائی اور رسولؐ نے اپنے دور میں کرکے دکھائی اور بعد میں مسلم حکمرانوں نے اِس کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا۔ رسول اللہ نے فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کو سوائے گنتی کے چند کے سب کو امان دی ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے آپؐ سے جنگ لڑی، عہد شکنی کی۔ آپؐ کو ایزا پہنچائی۔ آپؐ نے انسانیت کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور مساوات کی جو مثالیں قائم کیں وہ رہتی دُنیا تک انسانوں کے لیے مثالی عمل کے طور پر قائم رہیں گی۔ سورئہ الم نشرح میں آپؐ کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے ’’اور ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کے آوازہ ذکر کو بلند کیا‘‘۔ یہ ذِکر اتنا بلند ہوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں اس کے سامنے پست ہو کر رہ گئیں، مقام محمود آپؐ کی شانِ رفعت کا مظہر ٹھیرا۔ یہ رتبہ ٔ بلند کل کائنات میں آپؐ کے سوا کسی کو نصیب نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ آپؐ کی رفعت ِ ذکر کے بارے میں سیدنا ابوسعیدؓ خذری سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ کے پاس جبرائیل امین تشریف لائے اور فرمایا ’’میرا اور آپؐ کا ربّ پوچھتا ہے کہ اُس نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا؟‘‘۔ نبی اکرمؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔ اس پر جبرئیل نے کہا، اللہ ربّ العزت فرماتا ہے ’’جب میرا ذِکر کیا جائے گا تو اس کے ساتھ آپؐ کا بھی ذکر ہوگا‘‘۔
سو اہل کفر اسلام کی نفرت میں آسمان پر تھوکنے کی کتنی ہی کوششیں کریں وہ واپس پلٹ کر اُن ہی پر گرے گا۔ آج فرانس میں آزادی اظہار کے نام پر حکومتی پشت پناہی میں اسلام اور رسول اللہ کی توہین کی جارہی ہے اور مسلمانوں کو تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فرانسیسی ٹیچر کم عمر بچوں کو اظہار آزادی کا سبق پڑھانے کے لیے توہین آمیز خاکے دکھاتا ہے۔ والدین اس کے اس عمل پر احتجاج کرتے ہیں، ایک بچی کا باپ تھانے جا کر پولیس میں شکایت بھی درج کراتا ہے لیکن اسکول انتظامیہ تمام اعتراضات یہ کہہ کر مسترد کردیتی ہے کہ اسکول کے اساتذہ سبق کی تیاری کے سلسلے میں بااختیار ہیں، جب وقت پر اسکول انتظامیہ اور پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تو پھر وہ ہونا ہی تھا جو بہادر عبداللہ اندرف نے کیا۔
حقیقت میں فرانسیسی صدر کے غیر ذمے دارانہ رویے نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ وہ طاقت اور تشدد کے ذریعے مسلمانوں کو توہین رسالت برداشت کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ امن، بھائی چارے اور انسانی حقوق کے دعویدار سوچے سمجھے منصوبے کے تحت توہین رسالت کے بار بار مرتکب ہورہے ہیں۔ اظہارِ آزادی کے نام پر وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ سیکولرازم میں بھی منظور نہیں کیا جاتا۔ فرانس کے اپنے آئین میں کہا گیا ہے کہ ’’آزادی کا حق اس حد تک تسلیم کیا جائے گا جب تک اس سے کسی دوسرے شخص کا حق متاثر یا مجروح نہ ہو اور اِن حقوق کا تعین بھی قانون کے ذریعے کیا جائے گا۔ ’’آئین فرانس آرٹیکل نمبر 4‘‘۔
جرمنی کے آئین آرٹیکل نمبر 1 میں تکریم انسانی کو ناقابل تنسیخ حق قرار دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ ہر شخص کو تحریر و تقریر اور اظہار آزادی کا حق حاصل ہے مگر یہ حقوق قانون، قواعد و ضوابط اور شخصی عزت و تکریم کے دائروں میں رہتے ہوئے استعمال کیسے جاسکیں گے۔ سوچیے کہ ان ممالک کا آئین عام انسان کی عزت و تکریم کے بارے میں یہ کہتا ہے۔ تو انبیائِ کرام کی عزت و تکریم انہیں کس مقام پر کرنا چاہیے؟ دراصل بار بار توہین کرنے کا مقصد مسلمانوں کی بے حسی کے درجے کا جانچنا ہے اور دوسری طرف توہین کے جواب میں توہین ہو تو پھر وہ فتنہ و فساد کا بہانہ حاصل ہونے کے منتظر ہیں۔ لیکن اسلام تو وہ مذہب ہے کہ اب تک بھیجے جانے والے تمام انبیا کو مانتا ہے ان کے عزت و احترام کو دل سے تسلیم کرتا ہے، مسلمان خود کو سیدنا ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور تمام انبیا کا وارث سمجھتے ہیں اور قرآن کے فرمان کے مطابق ان میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ البتہ فضیلت کا معاملہ اور ہے۔
مغرب کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے نبی سیدنا مسیح عیسیٰؑ کے بارے میں توہین آمیز فلم بناتے ہیں اور سینما کے باہر مسلمان احتجاج کرتے ہیں۔ اس احتجاج کے نتیجے میں فلم کے گندے پوسٹر ہٹائے جاتے ہیں اور فلم بُری طرح فلاپ ہوجاتی ہے۔ یہ فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپ ٹیشن آف کرائسٹ‘‘ تھی جس کا پروڈیوسر ایک امریکن یہودی تھا۔
لہٰذا مغرب کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے فرانس کے صدر کا رویہ سمجھا جاسکتا ہے۔ حالاں کہ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ سخت ترین قوانین کے باوجود توہین رسالت پر مسلمانوں کے سخت ردعمل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ انہیں فرانسیسی استاد کے عمل کو مسترد کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے وہ بہادر عبداللہ کے ایمانی جذبے کو اسلامی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں اور ایسی گھٹیا، ناقابل برداشت اور تکریم انسانیت اور تکریم انبیا کے خلاف حرکت کے تحفظ کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔ مغرب کی اظہارِ رائے کے پیمانے انتہائی منافقانہ ہیں۔ خاص طور سے اس وقت جب معاملہ یہودیوں کے ہولوکاسٹ، اسرائیل کے فلسطین پر مظالم کا ہو۔
حال ہی میں یعنی ستمبر 2020ء کے آخری ہفتے میں فرانسس کو یونیورسٹی کی جانب سے منعقد ایک ویڈیو گفتگو (ویبینار) کو منسوخ کردیا گیا کیوں کہ اس میں فلسطین کی لیلیٰ خالد بطور مقرر مدعو تھیں اس پروگرام میں ’’لارا وائٹ بارن‘‘ بھی مدعو تھیں جو 1983ء میں امریکی سینیٹ پر بم حملوں میں ملوث ہونے پر 14 سال قید کاٹ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چند ایسے افراد شامل تھے لیکن صرف لیلیٰ خالد پر ہی اعتراض اُٹھایا گیا وہ بھی اسرائیل سے منسلک گروہوں کی جانب سے کہ لیلیٰ خالد فلسطینی محاذ حریت کی رکن ہیں اور اس اعتراض پر اس ویبینار یعنی گفتگو کے پروگرام کو منسوخ کردیا گیا۔ بھلا اب اظہارِ آزادی کا تحفظ کہاں گیا؟ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ اسرائیل کے خلاف نکتہ نظر رکھنے والے لوگوں کی بات نہ سنی جائے اور نہ اُن کا سامنا کیا جائے۔ وہ لیلیٰ خالد کو بولنے کا موقع بھی دینے کو تیار ہیں اور اُس کے لیے کہتے ہیں کہ ’’اظہارِ رائے پر یقین ہے لیکن دہشت گردوں (یعنی لیلیٰ خالد) کو نفرت پھیلانے کے لیے موقع دینے کے مخالف ہیں۔ وہیں جب فرانسیسی ٹیچر دہشت گردی تشدد اور نفرت پھیلاتا ہے تو فرانسیسی صدر اس کے لیے آزادی اظہار کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ فرانسیسی پولیس عبداللہ کو شہید کردیتی ہے۔ بہادر عبداللہ کے والدین بھائی اور دادا دادی تک کو گرفتار کرلیتے ہیں۔ یہی نہیں مزید مسلمانوں کے گھروں پر گرفتاری کے لیے چھاپے مارے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہادر عبداللہ کے حق میں پیغام لکھنے والوں کو بھی گرفتار کررہے ہیں۔
یہاں تک کہ 51 مسلمان تنظیموں کے خلاف بھی تحقیقات کررہی ہے۔ حالاں کہ ان میں سے اکثر انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں۔ جو اسلامو فوبیا کے خلاف بھی جدوجہد کررہی ہیں اور وہ اقوام متحدہ کی دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ منسلک نہیں۔ بس معاملہ وہی ہے کہ اظہارِ آزادی اور انسانی حقوق مسلمانوں کے معاملے میں ان کے ہاں اُلٹے معنی رکھتے ہیں۔
آئیے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ 2009ء میں جرمنی ڈریسڈن کی عدالت میں مروہ الشربینی کو 28 سالہ جرمن نے قتل کردیا۔ مروہ نے اپنے قتل سے چند لمحے قبل اس کے خلاف گواہی دی تھی۔ عدالت میں مجرم کو نہ روکا گیا نہ اس پر گولی چلائی گئی۔ 2011ء میں ناروے میں ایک انتہا پسند نے 77 افراد کو قتل کیا۔ حملے سے قبل اس نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف ہے۔ 77 آدمیوں کے اس قاتل کے بارے میں شواہد نہیں بتائے کہ اس کے خاندان یا کسی ہم مذہب کو گرفتار کیا گیا۔ 2015ء میں تین عرب مسلمانوں کو جن میں ایک خاتون تھی اور وہ ایک خاندان تھے۔ ایک امریکی نے قتل کردیا۔ وہ خود کو مذہب کا مخالف کہتا تھا اور اکثر انہیں دھمکاتا تھا۔ برطانیہ میں 2017ء میں ایک برطانوی نے مسجد کے قریب کھڑے لوگوں کو اپنی گاڑی سے روند ڈالا۔ اس میں ایک شخص ہلاک اور 10 زخمی ہوئے اور سب مسلمان تھے۔ حملہ آور نے بعد میں کہا کہ اُس نے یہ اسلام دشمنی میں کیا۔ کینیڈا میں 2017ء میں ایک سفید فام شخص نے مسجد کے اندر فائرنگ کرکے 6 افراد کو ہلاک اور درجن سے زائد کو زخمی کردیا۔ جرمنی میں 2019ء میں نئے سال کی رات ایک مجرم نے تارکین وطن مسلمانوں پر حملہ اور 10 کے قریب لوگوں کو زخمی کردیا۔ نیوزی لینڈ میں 2019ء میں 2 مساجد پر نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور 50 افراد کو قتل کردیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب واقعات میں قاتل کے کسی رشتے دار اور ہم مذہب کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس سے تعلق کے شعبے میں کسی تنظیم کے بارے میں تفتیش اور چھان بین کی گئی۔
یہ ہے مغرب کا مسلمانوں کے بارے میں منافقانہ طرزِ عمل۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی، فرانسیسی میگزین ’’شارلی ہیبڈو‘‘ نے متنازع خاکے دوبارہ شائع کیے ہیں اور فرانسیسی صدر نے ملکی میڈیا سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کے تمام اخبارات ان خاکوں کو اپنے اخبارات میں شائع کریں۔ وہ اگر سدھرنے والے نہیں تو یہ بات طے ہے کہ اگر توہین رسالت کا مرتکب کوئی کافر ملک کا رہنما ہو تو مسلمانوں کی حکومت کو اس کی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنا چاہیے۔ اگر اس کی طاقت نہ دکھتی ہو تو مناسب وقت کا انتظار کرے تا کہ کفار آئمہ کی سرکوبی کی جاسکے۔ جو کام کیا جاسکتا ہے وہ میڈیا پر اس کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی جائے۔ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور سب سے اہم سیرت النبی کے مطابق اپنی زندگی اور ملکی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔