دین کا انفسی احیا

1000

زندگی کچھ اصولوں کے تحت گزرتی ہے جن کی روشنی میں قومیں ترقی اور بقا کے لیے درکار مختلف طرح کے نظام بناتی ہیں بلکہ بناتی رہتی ہیں۔ جو قومیں اس میں ناکام رہ جاتی ہیں، یعنی اصول ِ زندگی سے عملی نتائج پیدا کرنے کی اہلیت گنوا بیٹھتی ہیں، اور ان کی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں رہ جاتی۔ وہ اپنی پہچان بھی غالب تہذیبوں اور قوموں سے مستعار لینے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ ہم بھی زندگی میں ناکامی کی اسی سطح پر پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس گڑھے میں کسی نے دھکیلا نہیں ہے بلکہ ہم خود کودے ہیں۔ یہ ناکامی صرف تاریخی جبر نہیں ہے بلکہ ایک جرم ہے۔ وہ جرم یہ ہے کہ ہم دین اور زندگی میں کوئی نتیجہ خیز تعلق پیدا کرنے سے دانستہ گریزاں رہے اور گریزاں ہیں۔ اور یہ گریز کسی خاص قوم کا شعار نہیں ہے بلکہ پوری مسلم امہ اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ دین کو محض ایک بانجھ تصور اور خیال بنائے رکھنا جس سے انتہائی رسمی، ظاہری ، انفرادی اور محدود نتائج کے علاوہ کچھ نہ نکل رہا ہو تو ظاہر ہے کہ یہ جرم ہی کہلائے گا جس کا امت نے اجتماعی طور پر ارتکاب کیا ہے۔ ہماری غفلت کی وجہ سے ہی آج یہ صورتِ حال ہے کہ انسانوں کی ذہن سازی کرنے اور مقاصدِ زندگی کا تعین کرنے والے تقریباً تمام علوم اپنے اندر مہارت پیدا کرنے کے لیے طالبِ علم سے خدا اور دین کو چھوڑنے یا ان سے لاتعلق رہنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ دین کو چھوڑے بغیر انسانوں کا مطالعہ کرنے والا علم حاصل نہیں ہوسکتا، اور اسی طرح دین سے منہ موڑے بغیر دنیا کو سمجھنے والے علوم میں مہارت نہیں پیدا کی جا سکتی۔ اس عالم گیر صورتِ حال میں ہم نے اپنی یہ حالت بنا رکھی ہے کہ علم ہو یا عمل، اصول ہوں یا نظام، اقدار ہوں یا ان کے مظاہر، یہ سب کچھ الف سے یے تک ہم اپنے غیروں سے اخذ کرنے پر مجبور بلکہ مائل ہیں۔ ہم ہر دروازے پر کشکول لیے کھڑے ہیں۔ چلو دنیا میں کمزوری اور پسماندگی کی کوئی غلط صحیح تاویل ہوسکتی ہے لیکن اپنے دین کے ساتھ ہمارا جو رویہ ہے اس کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے؟ ہمارا ایمان ایک جاہلانہ اسلوب میں ہے اور عمل ایک منافقانہ منہج پر۔ دین کو اپنی اختیار کردہ پستی میں کھینچ لانے کے جرم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے دین کو ایک لفظ کی طرح تو مان رکھا ہے لیکن اس کے معانی سلب کر لیے ہیں۔ ہم بس لفظ کو جھاڑ پونچھ رہے ہیں مگر اسے بولنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ہم یہ بات جانتے تو ہیں مگر ماننے پر تیار نہیں کہ یہ دین مانا جائے گا تو صرف اپنی مراد پر مانا جائے گا، ہماری خواہش پر یا مجبوری اور اختیار پر نہیں۔ آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ ہم کئی صدیوں سے زوال اور معدومیت کے نشیب میں لڑھکتے جارہے ہیں۔ پہلے مسلم ریاست ختم ہوئی، پھر مسلم سوسائٹی کا قصہ تمام ہوا اور اب مسلم فرد کمیاب سے نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ ذرا تاریخ اور دنیا کی لوح سے اپنے مٹائے جانے کے یہ مراحل دیکھیے اور فیصلہ کیجیے کہ اسی طرح معدوم ہوتے چلے جانا ہے یا موجود ہونے کی کوشش کرنی ہے۔ یہ دین اس لیے اترا تھا کہ اسے ساری انسانی صورتِ حال اور اس میں پیدا ہوتی رہنے والی تبدیلیوں کے ساتھ متعلق رکھا جائے، اور یہ تعلق غلبے اور نتیجہ خیزی کے ساتھ ہو۔ اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ غلبے کے ساتھ تعلق کا تو سوال ہی کیا ہے، اب اس تعلق کی معروف سطح کو بھی برقرار رکھنے میں مسلمان بری طرح ناکام ہیں۔ مسلمان اگر اپنے دین کے ساتھ ایک بڑے اجتماعی اسکیل پر سنجیدہ ہوتے تو آج تجربی علوم بھی ایمانی تاثیر کے حامل ہوتے اور معاشی و سیاسی عمل بھی روحانی سرگرمی کا حصہ ہوتا اور ایک بڑے اخلاقی کل کا جز ہوتا۔ مسلمانوں کا دنیا میں بڑا کردار یہی تھا کہ آخرت کی فلاح کو مقصود بنا کر ایک فلاحی دنیا تعمیر کریں، کیونکہ جنت کی طلب سچی ہو تو آدمی دنیا ہی کو جنت بنانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ تاکہ دنیا بھی ایک طرف تو راحت وسلامتی کا گھر بن جائے اور دوسری جانب اس سے کہیں بڑھ کر، اللہ کی حضوری سے بھر جائے۔ اللہ کی حضوری کے حوالے کے بغیر اور اللہ کی خوشنودی کا ریفرنس رکھے بغیر جنت کی کوئی حیثیت، کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسی طرح دنیا کی خوش حالی کا ہر تصور تعلق باللہ میں مضبوطی کو مقصود بنا کر ہی قائم کیا جائے گا ورنہ تو دنیا کی ساری چمک دمک غفلت کے پردے پر بنے ہوئے رنگین نقش ونگار سے زیادہ کچھ نہیں۔ مسلمان کا کام تھا کہ اللہ پر ایمان کو دنیاوی ترقی اور خوش حالی کا بھی سبب بنا کر دکھاتا۔ اور اسلام کو دنیا کے لیے سب سے بڑی رحمت اور برکت کی حیثیت سے ثابت کرتا۔ اور سب قوموں کو یہ مشاہدہ کروا دیتا کہ دیکھو یہ دین انسان کی بھی ذہنی اور اخلاقی تکمیل کرتا ہے، انسانیت کی مجموعی سطح کوبھی بلند کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دنیا اور اس کے حقائق کو بھی حالتِ انکشاف میں لانے کی مربوط، مضبوط اور مقصدی جد وجہدکرواتا ہے۔ آج ذہن کو ترقی دینے والی، شعور کی ساخت کو بہتر بنانے والی، اخلاقیات میں بامعنی اضافے کرنے والی، معیشت میں کوئی باقاعدہ نظام بن سکنے والی، سیاسیات میں ناگزیر حیثیت اختیار کر لینے والی کوئی ایک بات بھی کسی مسلمان کے منہ سے نہیں نکلی۔ بقولِ اقبال: مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے۔ اور یہ راکھ کا ڈھیر کہہ رہا ہے کہ مجھے آگ کا الاؤ مانو ورنہ میں تمہیں بھسم کردوں گا۔ اب سوچیے کہ اس دھمکی پر لوگ ہنسیں گے یا ڈریں گے۔ نہایت سطحی باتیں نہایت سنجیدہ ہو کر کی جاتی ہیں ، نہایت تیقن اور اعتماد سے کی جاتی ہیں۔ علم دین کا ہو یا دنیا کا، ذہنی سطح کو بلند ضرور کرتا ہے، ذہانت میں اضافہ ضرور کرتا ہے، ذہن کی ساخت میں بہتر تبدیلیاں ضرور لاتا ہے، ذہن کو خلاق ضرور بناتا ہے۔ کیا آج کی دینی تعلیم سے یہ فطری نتائج نکل رہے ہیں؟ کوئی تیس چالیس برس پہلے تک یہ ماحول تھا کہ ہر گلی محلے میں دو چار آدمی ایسے ہوتے تھے جن کو دیکھ کر اپنی کمزوری اور بے عملی کے باوجود مسلمان ہونے پر فخر اور اعتماد محسوس ہوا کرتا تھا۔ مطلب، ایک روحانی گارڈین شپ تھی جو ہر ہرگلی میں جاری و ساری تھی۔ ہر محلے میں دین کا کوئی چلتا پھرتا مظہر مل جاتا تھا جسے دیکھ کر مجھ ایسے بے عمل کاہلوں میں بھی دین داری کی کشش پیدا ہوجاتی تھی۔ اس طرح کے دو چار آدمی پہلے ہر گلی میں ہوتے تھے، پھر یہ صورتِ حال گلی سے نکل کر محلے تک پہنچی، محلے سے نکل کر قصبے تک پہنچی اور اب قصبے سے نکل کر شہر میں آ رُکی ہے۔ اب ہم خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ چلو میری گلی، میرے محلے ، میرے قصبے میں نہ سہی، میرے شہر میں تو دو چار اللہ کے بندے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ کی یاد آجاتی ہے۔ یہ معاملہ اب شہر سے نکل کر ملک تک جائے گا اور پھر یوں لگتا ہے کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہوا کریں گے کہ ہمارے ملک میں نہ سہی، دنیا میں بہرحال اللہ کے دوچار دوست موجود ہیں۔
(جاری ہے)