افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

336

ختم نبوّت
ایک گروہ، جس نے اِس دور میں نئی نبوّت کا فتنۂ عظیم کھڑا کیا ہے، لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی مْہر‘‘ کرتا ہے اور اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبیؐ کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپؐ کی مْہر لگنے سے نبی بنیں گے، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپؐ کی مْہر نہ لگے وہ نبی نہ ہو سکے گا۔
لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندر رکھ کر اسے دیکھا جائے تو اِس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی، بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ نے محل ہی نہیں، مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتا ہے (سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے سورۂ احزاب کے حواشی نمبر 67 تا 89 نِگاہ میں رہنے چاہییں) آخر اس بات کا کیا تْک ہے کہ اوپر سے تو نکاح زینبؓ پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات کا جواب دیا جا رہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمدؐ نبیوں کی مْہر ہیں، آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مْہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ بالکل بے تْکی ہے، بلکہ اس سے وہ استدلال اْلٹا کمزور ہو جاتا ہے جو اوپر سے معترضین کے جواب میں چلا آ رہا ہے۔ اِ س صورت میں تو معترضین کے لیے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اِس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اِس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مْہر لگ لگ کر جو انبیاء آتے رہیں گے اْن میں سے کوئی اسے مٹا دے گا۔
٭…٭…٭
نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اْس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عملِ صالح میں ترقی کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل بنا لیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صلے میں عطا کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لیے مامور کیا جاتا ہے، اور جب ضرورت نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیاء پر انبیاء نہیں بھیجے جاتے۔ قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتا چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں:
اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ دوّم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھْلا دی گئی ہو، یا اس میں تحریف ہو گئی ہو، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔ سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔
چہارم یہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبیؐ کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔
٭…٭…٭
ختمِ نبوت اْمتِ مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہو سکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمدؐ کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذِ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اس برادری کا فرد ہے اور ہر وقت ہو سکتا ہے۔ یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہو سکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا۔ کیوں کہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔
آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کے لیے ایک نبی بھیج دیا جائے، اور جب اس نبی کے ذریعے سے دین کی تکمیل بھی کر دی جائے، اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کر دیا جائے، تو نبوت کا دروازہ بند ہو جانا چاہیے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔