قصواء… نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی

1516

 

مختلف مہمات کے علاوہ سفر وحضر کے دوران بھی اکثر وبیشتر صحابہ کرامؓ، رسولِ اکرمؐ کے ساتھ قصواء پر سوار ہوئے۔ حجۃ الوداع کا سفر بھی آپؐ نے قصواء پر کیا۔ روایات میں آتا ہے کہ 9 ذوالحجہ کو آپؐ کے حکم پر قصواء پر کجاوہ کسا گیا اور آپؐ بطن وادی میں تشریف لے گئے جہاں ایک لاکھ 42 ہزار یا ایک لاکھ 44 ہزار صحابہ کرام کا مجمع تھا۔ آپؐ نے وہاں ایک جامع خطبہ دیا۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ یہ مساواتِ انسانیت اور ذات پات کے خاتمے کا اولین چارٹر ہے۔
قصواء کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر یہ جامع خطبہ ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میری بات سنو۔ میں نہیں جانتا کہ شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی مل سکوں۔ تمھارا خون اور تمھارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمھارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور اس شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔
عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیوں کہ تم نے انھیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔
میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو تم اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب اور میری سنت۔
تم سے میرے بارے میں پوچھا جانے والا ہے، توتم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ یہ سن کر آپؐ نے انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔
واضح رہے کہ رسولِ اکرمؐ کے تمام خطبات میں یہ خطبہ جو حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا گیا، آپؐ کا طویل ترین خطبہ ہے۔
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں: ’’خطبہ ارشاد فرمانے اور ظہر وعصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؐ جائے وقوف پر تشریف لے گئے۔ قصواء کا شکم چٹانوں کی جانب کیا اور جبل مشاء کو سامنے کیا اور قبلہ رخ وقوف فرمایا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔ اس کے بعد رسولِ اکرم قصواء پر سوار ہوئے اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو پیچھے بٹھایا۔ وہاں سے مزدلفہ تشریف لے گئے‘‘۔
رسولِ اکرمؐ کو قصواء اس قدر محبوب تھی کہ اسے دیگر اْونٹنیوں کی طرح کھونٹے سے باندھ کر نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ اسے کھلا چھوڑا جاتا تھا۔ قصواء کا دائمی مسکن جنت البقیع کے قریب ایک چراگاہ تھی۔ قصواء وہاں قرب وجوار کی جھاڑیوں سے چرتی تھی۔ رسولِ اکرمؐ قصواء کو پیار سے کبھی ’جدعاء‘ بھی کہہ کر بلاتے۔ کبھی ’قضباء‘ اور کبھی’عصباء‘ کہتے۔ گویا یہ سب قصواء کے نام ہیں۔ قصواء کو اْونٹوں کے دوڑ کے مقابلوں میں بھی کبھی کبھار شریک کرایا جاتا تھا۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں: ’’جب کبھی قصواء کو اْونٹوں کے مقابلوں میں شریک کروایا گیا تو قصواء دوڑ میں ہمیشہ بازی لے گئی‘‘۔
سیدنا سعید بن المسیبؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوڑ کے مقابلے میں قصواء پیچھے رہ گئی اور دوسری اْونٹنی اس پر سبقت لے گئی۔ اس پر مسلمانوں کو افسوس ہوا۔ جب نبی کریمؐ کو معلوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا کی چیزوں میں جس چیز کو لوگ بہت زیادہ بلند مقام دینے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے اس کے مقام سے گراتا ہے‘‘۔
قصواء رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں11 سال تک رہی۔ آپؐ کی وفات جہاں تمام صحابہ کرامؓ کے لیے عظیم صدمہ تھا وہاں قصواء کے لیے بھی نبیؐ کی وفات کسی بڑی مصیبت سے کم نہ تھی۔ صحابہ کرامؓ اس صدمے سے نکل آئے مگر قصواء کو رسولِ اکرمؐ کی جدائی برداشت نہ ہوسکی۔ شدتِ غم کی وجہ سے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہی۔ قصواء نے کھانا پینا ترک کردیا۔ آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے رہتے تھے، یہاں تک صحابہ کرامؓ نے اس پر رحم کھاتے ہوئے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ رسولِ اکرمؐ کی وصال کے بعد قصواء پر کوئی سوار نہ ہوا، پھر ابوبکرؓ کی خلافت کا ایک سال بھی پورا نہیں ہوا کہ قصواء بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔