ٹک ٹاک ٹھیک ٹھاک ہوگئی

438

خبریں پڑھنے اور سننے والے ایسی خبروں سے خوب اچھی طرح واقف ہوںگے جن میں فحاشی کو فروغ دینے کے لیے شریفانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ان مقامات کو غم و غصے کے ساتھ بیان کرتے ہوئے بڑی تفصیل کے ساتھ ہونے والی سرگرمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور اپیل کی جاتی ہے کہ ایسے مقامات پر جانے سے نہ صرف گریز کیا جائے بلکہ ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے یہاں آنے والوں اور اس قسم کے اڈے چلانے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ بظاہر اس خبر کا مقصد بہت ہی نیک دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے پسِ پردہ بہت ہی مکروہ مقاصد ہوتے ہیں۔ اس قسم کی تمام خبریں ایک طرح کی اشتہار بازی ہوتی ہے جو کوئی پیسہ دھیلہ خرچ کیے بغیر پورے ملک اور خصوصاً ان اڈوں کے قرب و جوار میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں اور ارد گرد کے بدقماش لوگوں کے لیے تو خوشخبری کا سبب بن ہی جاتی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ آس پاس کے وہ نوجوان جو، ان سرگرمیوں میں بظاہر کوئی دلچسپی بھی نہ رکھتے ہوں، ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ان میں جنم لینے والا تجسس اکثر کو گمراہ کر دینے کا سبب بھی بن جایا کرتا ہے۔
کچھ دنوں پہلے ٹک ٹاک پر پی ٹی اے نے پابندی عائد کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تھا۔ ٹک ٹاک کے خلاف سوشل میڈیا سمیت ہر قسم کے میڈیا پر تبصرہ آرائی تو ہوتی ہی رہتی تھی اور اس بات پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ اس پر پابندی لگائی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کے بگڑ جانے کے خدشات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی شکایات کی وجہ سے پی ٹی اے نے اس پر پابندی لگاتے ہوئے اس کو بلاک کر دیا تھا۔ جس طرح اس کو بند کردینے کے لیے پی ٹی اے پر بے حد دباؤ تھا، اسی طرح اسے کھول دینے کے لیے بھی دباؤ آیا۔ ملک کے اندر سے شدید دباؤ آیا ہو یا نہ آیا ہو، بیرونی ممالک سے اس پر شدید تنقید کی گئی اور اسے اظہار خیال پر بے جا پابندیاں قرار دیا گیا۔
ٹک ٹاک پر لگی پابندیاں اندرونی دباؤ کی وجہ سے اٹھالی گئیں یا بیرونی دباؤ نے اپنا اثر دکھایا، یہ ایک الگ بحث طلب بات سہی لیکن ہوا یہ کہ پہلے اگر پاکستان میں کچھ افراد اس اپلیکیشن کی خباثت سے واجبی سے واقف تھے یا بے شمار پاکستانی سرے سے اس کے متعلق کچھ جانتے ہی نہیں تھے، پابندی لگ جانے کی وجہ سے پورا پاکستان اس بات سے واقف ہو گیا کہ وہاں ضرور کوئی ایسا ماحول موجود ہوگا جس کی وجہ سے پی ٹی اے اسے بند کر دینے پر مجبور ہوا۔ یہ پابندی ایک ایسا اشتہار بن گئی جس نے اس کی ساری حشر سامانیاں عریاں کرکے بالکل ناواقف افراد کی توجہ کو بھی اپنی جانب مبذول کر لیا اور اب اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ وہ افراد جن کو یا تو علم ہی نہیں تھا یا وہ ایسی سرگرمیوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے، پابندیاں اٹھ جانے کے بعد اس میں اپنی دلچسپی لیتے ہوئے نظر آنے لگیں گے۔
گمراہ کر دینی والی سر گرمیوں میں دلچسپی لینے والے افراد نہ صرف کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو اس قسم کی سر گرمیوں کو نہ تو کوئی گناہ کا کام سمجھتے ہیں اور نہ ہی غیر اخلاقی حرکت۔ کچھ اسے غلط تو سمجھتے ہیں لیکن اپنی خواہشوں کے غلام بن چکے ہوتے ہیں۔ غرض ایسی سرگرمیاں معاشرے کے اخلاقی بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور اخلاقی انحطاط خاندانی نظام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ سنجیدہ افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے کو ایسی سرگرمیوں سے بچا کر رکھا جائے اس لیے وہ ایسی سرگرمیوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور نوجوان نسل کو ایسے لوگوں کی پرچھائیوں تک سے بچا کر بھی رکھنا چاہتے ہیں۔
پی ٹے اے نے اگر اس پر پابندی لگا ہی دی تھی تو پھر اس پابندی کو کسی کے دباؤ میں آکر اٹھا نہیں لینا چاہیے تھا۔ پابندیاں لگانے کا اعلان بہت سارے کان کھڑے کر گیا تھا۔ پابندیاں برقرار رہنے کی صورت میں، واقف و ناواقف مزید حدود پھلانگنے سے بچے رہتے لیکن پی ٹی اے نے پابندیاں لگاکر جس اشتہا کو بھڑکایا تھا، پابندیاں اٹھ جانے کی وجہ سے ان ہی احتیاجات کی تسکین کی خواہش، اس اپلیکیشن کو دیکھنے پر ضرور مجبور کرے گی۔ بہر کیف وہی ٹک ٹاک جس کی ٹھوک ٹھاک کر نے کی ٹھان لی گئی تھی، وہ پی ٹی اے کی نظر میں ٹھیک ٹھاک ہو گئی لیکن یہ بات کسی کو سمجھ میں آکر نہیں دے رہی کہ پابندیاں لگائی ہی کیوں گئیں تھیں اور اگر اب اس کو مادر پدر آزادی دیدی گئی ہے تو اس کے پیچھے کن کن عناصر کا ہاتھ ہے۔