مراد علی شاہ نے سب کچھ تو کہہ دیا

481

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں مجھے سندھ حکومت ختم کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وفاقی وزیر نے کہا کہ صبح تک مقدمہ درج نہیں ہوا تو ایسی کی تیسی کر دیں گے۔ ایسا لگا سندھ ان کی کالونی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اس طرح گفتگو کر رہے تھے جیسے کوئی عام آدمی پولیس یا سرکاری افسروں کی شکایت کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بہت سی باتیں بتا نہیں سکتا۔ دو روز میں جو باتیں ہوئیں وہ بتا نہیں سکتے۔ وزیراعلیٰ نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ آئی جی سندھ کے واقعے پر زبان کھولی تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ وہ تحقیقات کی وجہ سے چپ ہیں۔ لیکن وزیراعلیٰ سندھ کی گفتگو میں کون سا معاملہ ہے جس پر زبان کھولنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ آئی جی کے معاملے میں زبان کھولی تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اس کے بعد زبان کھولنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ مراد علی شاہ تو سب کچھ کہہ گئے ہیں بس ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو انہیں بتا دینی چاہییں۔ ایک تو اس وزیر با تدبیر کا نام ضرور بتا دیں جو ایسی کی تیسی کرنے کی دھمکی دے رہا تھا اور وہ کون تھا جس نے حکومت ختم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد بے شک وزیراعلیٰ زبان نہ کھولیں۔ آئی جی سندھ کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا گیا ہے اندر اندر جو لہریں اٹھ رہی ہیں وہ زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستانی کی سرحدوں پر خطرات ہیں، دشمن ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے، جاسوس نیٹ ورک الگ کام کر رہا ہے، ایسے میں پاکستان حکومت، فوج اور پارلیمنٹ بری طرح منتشر ہیں۔ اگر اس انتشار پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو دشمن پاکستان کو بھاری نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آئی جی تنازع میں سندھ حکومت کے رول میں بھی تضاد ہے۔ اگر ان کی حکومت کو کوئی وزیر دھمکی دے رہا تھا تو اس کا نام لے کر اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے، آدھی بات کہہ کر بات نہ کرنے کا بہانہ عجیب رویہ ہے۔ کسی وزیر کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ دھمکی دے سکے۔ حکومت سندھ اور پی ٹی آئی دونوں جانب سے جو جنگ چل رہی ہے اس کے بعد تحقیقات اور رپورٹ پر تبصرے بھی پہلے ہی آ چکے ہیں۔ وفاقی وزرا کہہ چکے کہ پولیس کو احتجاج نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کی چھٹیوں کو مشکوک قرار دیا گیا اور اسے بلاول ہائوس کا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن وفاقی وزرا یہ بھی بتائیں کہ کیا صرف سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کی چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ مشکوک تھا یا آئی جی کو گھر سے اٹھا کر لے جانا اور حکم جاری کروانا بھی مشکوک تھا۔ اس صورتحال پر اصل تبصرہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کیا ہے کہ ملک میں عملاً غیر علانیہ مارشل لا نافذ ہے۔ عوام پر حکمرانی مسلط کیے جانے کا خاتمہ ناگزیر ہے سب سے بڑھ کر ان کا یہ مطالبہ ہے کہ سول انتظامیہ کے معاملات میں فوج کی مداخلت ختم ہونی چاہیے۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور وزیراعلیٰ سندھ کے بیانات کو ایک جگہ ملا کر پڑھا جائے تو صورتحال واضح ہو جاتی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قائداعظم، نظریہ پاکستان، جمہوریت وغیرہ کی ان لوگوں کے نزدیک کیا اہمیت ہوگی۔ جو لوگ مزار قائد کے تقدس کی بات کر رہے ہیں وہ آئین کی پامالی پر ایک صوبے کے آئی جی کو غیر قانونی طور پر گھر سے لے جانے پر کیوں زبان نہیں کھول رہے یہ تو ملکی قوانین اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سندھ حکومت کے رویے میں ایک اور تبدیلی یا تضاد بھی سامنے آیا ہے۔ اب تک وہ آئی جی سندھ سے لڑتی ہی نظر آئی ہے لیکن اچانک اس نے آئی جی اور سندھ پولیس سے یکجہتی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ یعنی اس کا دارومدار بھی وفاق کے رویے پر ہے۔ صوبائی حکومت کو اب یہ بات سمجھ میں آ رہی ہوگی کہ اگر وہ پولیس کا سیاسی استعمال نہ کرے اور پروفیشنل پولیس بنائے تو ایسی صورتحال سے پولیس خود نمٹ لیتی۔ اعلیٰ پولیس افسران کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو کام کریں قانون کے مطابق کریں اگر ان کے سروس ریکارڈ میں بدعنوانی نہیں تو محکمہ جاتی کارروائی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ معاملہ اس لیے خراب ہوتا ہے کہ تھانے سے لے کر آئی جی تک تقرر کے لیے رقم ادا کی جاتی ہے۔ نیچے سے اوپر تک رشوتیں چلتی ہیں، تھانے فروخت ہوتے ہیں، یہاں تک کہ چوکیاں بکتی ہیں۔ جب پولیس کو اس حد تک سیاسی استعمال میں لایا جائے گا تو خرابیاں آئیں گی۔ حکومت سندھ ایک اور بات پر بھی توجہ دے۔ سندھ پولیس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پولیس میں سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی ہی نہ ہو۔ خصوصاً کراچی پولیس اب کراچی پولیس نہیں لگتی اس حساس ادارے میں بھی تقرر کو قانون کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ کراچی والے پہلے بھی غیر مقامی پولیس سے شاکی تھے اور اس معاملے کو ایم کیو ایم نے خوب استعمال کیا تھا۔ اب دوبارہ ایسی صورتِ حال پیدا ہونے سے قبل معاملات ٹھیک کر لیے جائیں۔