اصول کا معاملہ یا ’’اسپیس‘‘ کا سوال؟

566

ملک میں ایک سیاسی اُبال آرہا ہے اور یہ قطعی غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ موجودہ ملکی حالات میں چند سیاسی گھرانے اسپیس چاہتے تھے۔ اسپیس کے اصل مفہوم کو پنجابی کے اس محاورے میں تلاش کیا جاسکتا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ’’لاٹھی جتنی جگہ دو اپنی جگہ میں خود بنالوں گا‘‘۔ اسپیس کا سوال پاکستان میں نیا نہیں۔ اسپیس کی ایک کہانی اس وقت سننے کو ملی تھی جب عمران خان کے دھرنے کے باعث نواز حکومت تنگ وعاجز آچکی تھی۔ حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی مخالفت کا میلہ لگا ہوا تھا اور حکومت اس احتجاج کو طاقت سے منتشر کرنے کی صلاحیت سے عاری تھی۔ اسی عالم بے بسی میں ایک شام چودھری نثار علی خان اپنے دوست میاں شہباز شریف کے ساتھ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور پوچھا کہ ان حالات میں فوج کیا چاہتی ہے؟۔ راحیل شریف کا جواب تھا حکومت کا خاتمہ نہ عمران خان کی حکومت کا قیام فقط ’’اسپیس‘‘۔ اس کی مزید تشریح یوں کی گئی کہ ملک کی جیو اسٹرٹیجک صورت حال پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں میں مشاورت۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان دائیں بائیں سے کراس فائر میں آچکا تھا اور سیلابی پانی کی طرح ساری بیرونی جنگوں کے مضر اثرات اس کی اپنی دہلیز پار کرکے کچن اور ڈرائنگ روم تک آچکے تھے۔ فوج ان جنگوں کو لڑنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی مگر اسے فیصلوں میں مطلوبہ اسپیس نہیں مل رہی تھی۔
اسپیس کہانی کے بعد وقت بدلا اور محمد زبیر جی ایچ کیو کی راہداریوں میں گھومتے پائے گئے۔ محمد زبیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا جب آپ سیاست میں اسپیس نہیں دیں گے تو پھر وہی بیانیہ سامنے آتا ہے جو نوازشریف نے اپنایا ہے۔ محمد زبیر کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ نوازشریف کے بعد مریم کے لیے گرین سگنل نہیں ہوگا تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے بتادیا کہ اگلے انتخابات میں مریم نوا زکی کامیابی کے لیے سگنل نہ ملنے کے بعد کمان کے سارے تیر آزمانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ ملک میں جاری غبار کی ساری وجہ یہی نہیں بلکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاست دان مدبر اور مصلح بننے کے بجائے کمیشن اور بدعنوانی کا کھیل شروع کرتے ہیں اور جواب مانگیں تو جمہوریت کے پیچھے چھپنے کا راستہ اپناتے ہیں۔ سیاست دان کی جواب دہی کا جمہوریت کے خطرات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بھارتی ریاست بہار کے ایک ہنس مکھ اور مزاحیہ قسم کے سیاست دان لالو پرشاد یادیو کو لوگ ابھی تک نہیں بھولے۔ کسی دور میں وہ میڈیا میں نمایاں دکھائی دینے والے سیاست دانوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی باتیں میڈیا کی شہ سرخی اور بریکنگ نیوز ہوتی تھی۔ لالو پرشاد یادیو اب میڈیا سے غائب ہو چکے ہیں وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ اس کا اندازہ چند دن قبل سامنے آنے والی اس خبر سے ہوا کہ عدالت نے لالو پرشاد یادیو کو کمیشن خوری کے کیس میں ضمانت پر رہا کر دیا۔ لالو اس مقدمے میں کئی سال قید کی سز کاٹ رہے ہیں۔ بھارت کی ایک اور مشہور سیاست دان تامل ناڈو کی چھ بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والی جے للیتا ہو کرتی تھیں۔ وہ بھی بھارتی میڈیا میں نمایاں ہوتی تھیں۔ جے للیتا ساٹھ کی دہائی میں بالی ووڈ کی فلموں کی مشہور اداکارہ بھی رہ چکی تھیں۔ وہ ایک سیاسی جماعت کی صدر بھی تھیں اور اپنی ریاست میں مقبول بھی۔ پھر وہ کرپشن کے الزامات کی زد میں آتی چلی گئیں اور جیل آنا جانا معمول بن گیا۔ جیل کی آمدو رفت بھی جاری رہی ان کی مقبولیت اور عدم مقبولیت اور شکست وفتح کا کھیل بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا یہاں تک ایک روز وہ بیماری کے عالم میں دنیا چھوڑ گئیں۔
یہ حال ہی کے واقعات ہیں جن میں معروف بھارتی سیاست دان اختیارات کے ناجائز استعمال، کمیشن خوری، آمدنی سے زائد اثاثوں کے الزامات کی زد میں آکرگردش دوراں کا شکار ہوئے مگر نہ بھارت میں جمہوریت خطرے میں پڑی۔ نہ تامل ناڈو اور بہار کی ریاستوں اور عوام کی عزت دائو پر لگی۔ کسی نے اینٹی کرپشن کیسز کو انتقام قرار دیا نہ ان اداروں کو ختم کرنے کے مطالبات ہوئے۔ جو شخص عوام کی قیادت کا نسل در نسل دعوے دار ہو اور اختیارات کا مزہ لینے کا عادی ہو۔ فیصلہ سازی کی مسند کا ہمہ وقت خواہش مند ہو اسے جواب دہی اور احتساب کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ صاحب اختیار شخص کے احتساب اور جواب دہی کے لیے روز آخرت یا انتخابی عمل کا انتظار اور اسے کسوٹی بنانا انصاف کے اصول اور تقاضے کے قطعی مغائر ہے۔ جمہوریت جواب دہی کا نام ہے۔ ذمے داری امانت ہے اور اس کا حساب کتاب اسمبلی میں سوال وجواب سے مکمل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہم نے سیاسی جماعتوں کو خانقاہی نظام کی طرح تقدس کے ہالے میں بند رکھا ہے۔ اول تو سیاسی جماعت کی اطاعت روحانی پیشوا کی طرح ہونی چاہیے۔ سیاسی قیادت سیاہ کو سفید کہے تو اسے سفید ہی ماننا چاہیے بصورت دیگر اس جماعت میں اپنے دن ختم سمجھ لینا چاہیے۔ پھر سسٹم اور قانون جواب طلب کرے، حساب کتاب مانگے تو سیاست پر چڑھے اس خانقاہی تقدس کی ملمع کاری کے پیچھے چھپا جائے۔ اس وقت ملک میں جاری کشمکش صرف سول اور ملٹری کشمکش ہی نہیں بلکہ بدعنوانی اور اس کے حساب کتاب کا معاملہ بھی ہے۔ گویا کہ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا پانی ہے۔ جس دل کو جو رخ بھاجاتا ہے وہ اس کا انتخاب اور سوچ کا وہ انداز اپناتا ہے۔
سول اور ملٹری کشمکش بھی ایک حقیقت ہے اور بدعنوانی اور بے تحاشا دولت اور منی لانڈرنگ بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ سوچنے کی بات تو ہے کہ جس مدت میں ملک کنگال ہوتا ہے اسی مدت میں حکمرانوں کی دولت کے مینار کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے سول حکمرانوں نے اس چیز کو چھپایا نہیں نہ وہ اس پر معترض رہتے ہیں ان کا اعتراض صرف یہ ہوتا ہے کہ صرف ہمار احتساب ہی کیوں ؟۔ فلاں جنرل اور جج کا احتساب کیوں نہیں؟۔ گویا کہ جب اپنے اوپر پڑتی ہے تو وہ اپنی آگ بجھانے کے بجائے جلتا ہوا کمبل دوسروں پر بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ یہ آگ ان تک محدود نہ رہے۔ احتساب اور جواب دہی کا اصول جج اور جرنیل سمیت سب سے لاگو ہونا چاہیے مگر اپنے حصے کا بوجھ کسی دوسرے پر لاد دینا اور کسی دوسرے کی آڑ لینا مناسب رویہ نہیں۔ ایسے میں اسپیس کا سوال اپنی جگہ مگر جو اسپیس سویلین حکمرانوں کو حاصل ہوتی اس کے حساب کو انتقام قرار دے کر معاملے کو ایک نیا رخ دینا بھی جمہوریت کی کون سی خدمت ہے؟۔