وفاق اور صوبہ دونوں چور ہیں ، کراچی کو خودمختار بنا یا جائے

274

 

کراچی (رپورٹ :جہانگیر سید ) کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں نے جسارت کے اس سوال پر کہ کراچی اپنی آمدنی کا 70 فیصد ملک کو اور 85 فیصد سندھ کو فراہم کرتا ہے جبکہ کراچی کو اس میں سے 5 فیصدبھی نہیں ملتا کہ جواب میں کہا کہ چونکہ میں 3 دہائیوں سے کراچی کے مسائل سے براہ راست وابستہ ہوں اس لیے آپ کے سوال کا جواب زیادہ واضح طور پر دے سکوں گا اول یہ کہ کراچی اپنی آمدن سے وفاق اورصوبے کو 3 ہزار ارب روپے سالانہ سے کچھ زیادہ ہی دیتا ہے لیکن وفاق اور سندھ سے ملنے والی رقم محض 50 ارب روپے بنتی ہے جو فراہم کردہ مجموعی رقم کا صرف ایک اعشارہ 6 فیصد سے زیادہ نہیں ہے اس صورتحال پر ہم کہیں گے کہ آپ 3 ہزار ارب لے کر جو 50 ارب دیتے ہیں وہ بھی نہ دیں، بس یہ کریں کہ شہر میں ایک مکمل طور پر بااختیار میونسپل کارپوریشن بنادیں اسے بے ساکھیوں کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا کریں، کسی بھی ملک اور شہر کو دوسرے
شہروں کے سہارے نہیں چلایا جاسکتا دنیامیں کہیں ایسا نہیں ہوتا، کراچی والوں کو اپنے مالی وسائل از خود پیدا کرنے اور یکجا کرنے کا موقع دے کر بااختیار بنا دیا جائے،کراچی خود بخود ترقی کرجائے گا۔اس کی ایک مثال دیتا ہوں، کراچی کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی اور کثیر القومی کمپنیاں سرمایہ لگانا چاہتی ہیں لیکن انہیں بھتااور جگا ٹیکس دینا پڑجائے، سرمایہ کاری کے لیے 10سرکاری اداروں سے این او سی لینا پڑے اور رشوت بھی طلب کی جائے تو کون سی کمپنی سرمایہ لگائے گی۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے بکھرے ہوئے اداروں کو کے ایم سی کی چھتری کے تلے ایک کردیاجائے۔ کراچی میں ایک بااختیار کے ایم سی کی جگہ کنٹومنٹ بورڈز، ڈی ایم سیز اور درجنوں بلدیاتی ادارے بنادیے گئے ہیں،ان سب کو اور شہر میں کام کرنے والے پی آئی اے، سول ایوی ایشن تعلیمی اور طبی مراکز جیسے وفاقی اداروں کو بھی کے ایم سی کے ماتحت کردیا جائے تب ہی کراچی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مالی وسائل حاصل کرسکے گا۔دوسرا کام یہ کریں کہ کراچی کے حقیقی باشندوں کو شہر کی نمائندگی دی جائے، سیاسی نعرے بازوں سے جان چھڑالی جائے، کراچی میں ان کو کام کرنے موقع دیا جائے جو کراچی کے حقیقی مسائل اور مشکلات کو عملی طور پر جانتے ہوں، ان کو حل کرنے کی عملی صلاحیت رکھتے ہوں، اس کے لیے ٹیکنو کریٹ ہونا ضروری نہیں، عملی طور پر کام کی قابلیت رکھنے والے ،کسی بھی زبان کے حامل، مخلص کراچی والوں کو موقع دینے کے ضرورت ہے، لیکن جن کو کراچی کی خدمت کرنے کے نام پر لایا جاتا ہے ان کی تقرری کے پروانے سندھ سیکرٹریٹ تغلق ہاؤس اور بلاول ہاؤس سے جاری ہوتے ہیں، ان کے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات ہوتے ہیں، کراچی کے عام اور قابل باشندوں کو اپنے شہر کے مسائل کا خود بھی سامنا کرنا ہوتا ہے وہ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے جان لڑا سکتے ہیں۔کراچی میں ہمارے پاس فو ج پولیس اور رینجرز تو نہیں ہے، ہمیں سانس تو لینے دو کراچی شہر ایک میگا پولیٹن اور میٹرو پولیٹن سٹی ہے اسے ایک ہمہ گیر کاسموپولیٹن سٹی ہونا ہے جو سیاسی نعروں سے نہیں بن سکتا اس کے لیے کراچی کے قابل باشندوں کو لانا ہوگا۔ نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی کا کہنا تھا کہ کراچی کا دامن بہت وسیع ہے ، یہ شہر ایک اعتبار سے پورے ملک اور پورے صوبے کو کھلا رہا ہے ملک کے کل بجٹ کا تقریباً 55فیصد وفاق کو کراچی دیتا ہے اور صوبے کے بجٹ کا 95 فیصد سندھ لے لیتا ہے، باقی 5فیصد بھی صرف 3شہر حیدرآباد، میرپور اور سکھر والے دیتے ہیں جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں کا حصہ بالکل صفر ہے، اس اعتبار سے کراچی بہت بڑا ایثار کر رہا ہے کہ وہ پورے صوبے کو کھلارہا ہے۔ پورا صوبہ کراچی سے مستفید ہورہا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، ایک پتھر اور باندھ لیںگے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کا حکمران طبقہ کراچی کی کمائی سندھ کے عوام تک تو پہنچنے دے، کراچی کا مظلوم محنت کش طبقہ اور دیگر طبقات ریوینو پیدا کرتے ہیں جو اس استحصالی طبقے کی جیبوں میں چلا جاتا ہے جبکہ سندھ کے عوام غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، سندھ کا استحصالی حکمراں بڑی عیاری سے سندھ میں کبھی لسانی جھگڑا کھڑا کردیتا ہے، کبھی شہری اور دیہی کا فرق پیدا کرکے عوام کو لڑا کر استحصال کرتا ہے، یہی حال وفاق کے حکمران طبقے کا ہے وہ ملک کا معاشی اور سماجی استحصال کررہا ہے، یہ طبقہ جوصرف ایک فیصد ہی ہوگا، پورے ملک میں دھما چوکڑی مچائے ہوئے ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ماہر اقتصادیات ڈاکٹر پروفیسر شاہدہ وزارت نے جسارت کے سوال پرکہا وہ سمجھتی ہیں کہ اس مسئلے کا براہ راست تعلق ملکی استحکام سے ہے۔ پاکستان میں نفرتیں پھیلا کر ملک کو کمزور یا خدا ناخواستہ ملک توڑنے کے مذموم منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت قومی مالیاتی ایوارڈ اور مردم شماری جیسے انتہائی اہم کاموں کے لیے ان افراد کو استعمال کیا جاتا ہے جن کا مفادات ملکی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان کے مفادات اندرونی اور بیرونی دشمن قوتوں سے جڑے ہوتے ہیں، یہ غیر مخلص عناصر پاکستان کے شہروں اور صوبوں کے درمیان نفرت پھیلانے کاکام کرتے یا کرواتے ہیں، ایسے ہی عناصر کو قومی مالیاتی ایوارڈ اور مردم شماری جیسے قومی مفادات کے کاموں میں ڈالا جاتا ہے، جس کا نتیجہ قومی انتشار اور بے چینی کی صورت میں نکلتا ہے، جس کا آج قوم کو سامنا ہے، اس قومی بحرانی مسئلے کا حل یہ ہے کہ قومی مالیاتی ایوارڈ اور مردم شماری جیسے انتہائی اہم کاموں کے لیے خالص مخلص ایمان دار اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل پاکستانیوں، جن کے مفادات کا ٹکرئو ملکی مفاد سے نہ ہو، چنا جائے اور ان ہی کو ٹاسک دیا جائے، قومی جذبے سے بھرپور پاکستان کے شہریوں اور صوبوں کے مفادات کو منصفانہ بنا کر پاکستان کو مستحکم کرسکتے ہیں، بصورت دیگر ملک دشمن اور نااہل افراد پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کو ناقابل تلافینقصان پہچاسکتے ہیں۔ ہمیں پاکستان کے عظیم مفاد میں یقینی بنا نا ہوگا کہ یہ کام ان پاکستانیوں کے سپرد کیا جانا چاہیے جن کا بیرونی ممالک سے کوئی تعلق نہ ہو جن کو صرف پاکستان کا مفاد عزیز ہو۔معروف اور متحرک سماجی رہنما صارم برنی کا جسارت کی جانب سے اٹھائے گئے سوال پر کہنا تھا کہ وہ کراچی کے ساتھ اس ناانصافی کو بہت بڑا ظلم سمجھتے ہیں اور ظلم کو ختم نہ کیا جائے تو انقلاب آتا ہے۔ اس ظلم میں سندھ اور وفاق کے ادارے دونوں شامل ہیں۔ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ انصاف صرف اسی صورت ہو سکتا ہے سندھ کے حکمران صوبے کے اداروں اور وفاق صوبے میں کام کرنے والے وفاقی اداروں کو ان کا حق دیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ صوبہ اپنی آمدن کا 80فیصد اپنے لوگوں پرخرچ کرے، 20 فیصد وفاق کو دیے جائیں۔ وفاق اور صوبے والے ایک دوسرے کو چور کہتے ہیں، ہماری نگاہ میں تو دونوں ہی چور ہیں، اگر وفاق اور صوبے کے حکمرانوں کے یہ دعوے مان بھی لیے جائیں کہ وہ کراچی سے مخلص ہیں پھر بتائیں کراچی اتنا تباہ حال کیوں ہے۔ وفاق نہ صوبے کے ذمے داروں نے، ہمارے پیسے ہم پر لگائے، زمینی حقائق کچھ بتا رہے ہیں حکمرانوں کے دعوے کچھ اور کہہ رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے سندھ نے نہ وفاق نے کراچی اور اندرون سندھ اسکول اور اسپتال بنائے، البتہ منشیات کے اڈے ضرور بڑھے ہیں۔ بیرون ملک ترقی کی مثالیں دیتے ہیں، ہر کوئی رٹے رٹائے سابق پڑھا رہا ہے، یہ کرتا دھرتا عملی میدان میں نہیں اترتے اس لیے کہ مسائل سے نمٹنے کی ان میں اہلیت ہوتی ہے نہ صلاحیت۔ ان میں ملکی مسائل کی سمجھ نہیں ہوتی، جب بیرونی ممالک سے مفادات حاصل کرنے کا موقع آتا ہے تو انہیں پتاہی نہیں ہوتا کہ ملکی مفاد کیا ہے اور نقصانات کیا ہے۔انہیں قوم کو سبق پڑھانا آتا ہے، باتیں بنانی آتی ہیں جویہ بناتے رہتے ہیں۔