پاکستان میں جمہوریت پر پہلا شب خون

1132

یہی اکتوبر کا مہینہ تھا جب پاکستان میں جمہوریت پر پہلا شب خون مارا گیا۔ تیئس اکتوبر سن انیس سو چون کا وہ پر آشوب دن مجھے ابھی تک یاد ہے جب اُس زمانہ کے نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ امریکا کا دورہ اچانک ادھورہ چھوڑ کر لندن کے راستہ کراچی واپس آئے تو ہوائی اڈے سے انہیں پولیس کے سخت پہرے میں عملی طور پر ایک قیدی کی طرح سیدھے گورنر جنرل ہائوس لے جایا گیا، جہاں گورنر جنرل غلام محمد، فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور اس زمانے کے مشرقی پاکستان کے گورنر، جنرل اسکندر مرزا صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ ہوائی اڈے پر موجود ہم چند صحافیوں نے وزیر اعظم بوگرہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن صاف منع کر دیا گیا، حتیٰ کہ پرنسپل انفارمیشن افسر کرنل مجید ملک بھی بے بس تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہوائی اڈے سے واپسی پر جب کراچی میں بھاری تعداد میں فوج کے دستوں کو نقل و حرکت کرتے دیکھا تو ماتھا ٹھنکا۔ طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا اور قیاس آرائیوں کا زور تھا۔ وہ پرآشوب رات تھی۔ پوری رات صحافی ان جانے اہم اعلان کا انتظار کرتے رہے۔ گورنر جنرل ہائوس میں تین کے ٹولے کے طویل صلاح مشورہ اور منصوبہ بندی کے بعد وزیر اعظم بوگرہ کو فوجی افسروں اور پولیس کی معیت میں بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیو لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب دستور ساز اسمبلی نے آئین کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر لی تھی اور ملک کے پہلے آئین کا مسودہ چھ روز بعد ایوان میں پیش کیا جانے والا تھا۔
پاکستان کی نو زائدہ جمہوریت پر یہ پہلا اور ایک بھرپور کاری وار تھا جو اُس زمانہ میں سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے بننے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر ملک کو ان بھول بھلیوں میں دھکیل دیا تھا جن سے وہ اب تک نہیں نکل سکا ہے۔ ملک غلام محمد انگریز دور کی بیوروکریسی کے نیابت دار تھے اور مالی معاملات میں مہارت کی بنیاد پر پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل کیے گئے تھے۔ وہ نہ مسلم لیگ کے رہنما تھے اور نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور دائرہ اثر تھا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے تحت اُس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو اس عہدے سے ہٹا کر انہیں وزیر اعظم کے عہدے پر مقرر کیا گیا اور ان کی جگہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ اس کا کہیں ثبوت نہیں کہ یہ عمل جمہوری طریقہ سے ہوا تھا۔ نہ تو اس زمانے میں حکمران مسلم لیگ کی کسی سطح پر اس معاملے پر غور کیا گیا اور نہ کابینہ میں اس مسئلے پر بحث ہوئی۔ یہ فیصلہ اس زمانہ کے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی اور بیوروکریسی میں ان کے قریبی ساتھیوں اور مشیروں نے کیا تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کی اکثریت کے اعتماد کے باوجود ان پر کوئی الزام عاید کیے یا کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر کے امریکا میں پاکستان کی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اقدام دراصل فوج کی مدد اور اعانت سے کیا تھا جس کے عوض فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔ پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا جب وزیر دفاع فوجی وردی میں ملبوس کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوا۔ یہ در حقیقت ملک کے اقتدار میں فوج کی شراکت اور آخر کار ملک کے اقتدار پر براہ راست فوج کے تسلط کا دروازہ کھولنے کی ابتدا تھی۔
چوبیس اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد کی طرف سے دستور ساز اسمبلی توڑنے کے اقدام کے پس پشت سب سے بڑی وجہ ملک میں آبادی اور طاقت کے لحاظ سے صوبوں کے درمیان عدم توازن تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے سات سال کے طویل عرصے کے بعد ملک کے پہلے آئین کے خاکہ کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی جو رپورٹ منظور کی تھی، دستور ساز اسمبلی میں پنجاب سے مسلم لیگ کے اراکین، جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے، اس کے سخت خلاف تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا بڑی حد تک جھکائو مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا اور نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں پنجاب کے مفادات کو سخت زک پہنچے گی۔ پنجاب کا یہ خدشہ اُس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ نور الامین کی شہہ پر سندھ کے وزیر اعلیٰ عبد الستار پیرزادہ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور ان کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے ایک آئینی ترمیم پیش کی۔ گورنر جنرل غلام محمد اس پر سخت طیش میں آگئے تھے۔ اسی کے ساتھ بیوروکریسی، فوج اور پنجاب کا مفاد پرست طبقہ اس اقدام پر لرز اٹھا۔ اسے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچے کے تحت مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر بالادستی حاصل ہوگئی اور وہ ملک کے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ کسی معاملہ پر یک رائے اور متحد ہو جائے تو پنجاب سیاسی طور پر بے بس ہو جائے گا۔ چنانچہ گورنر جنرل ملک غلام محمد کی شہہ پر 5 اکتوبر کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا اس میںکہا گیا تھا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو 28 اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔
پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو 3 مطالبات پیش کیے تھے ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف 4 سبجیکٹس ہونے چاہیں۔ اول، دفاع، دوم، امور خارجہ اور سوم کرنسی اور بین الاقوامی تجارت چہارم، بین الصوبائی مواصلات۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیے تمام صوبوں کے نمائندہ کی کمیٹی فیصلہ کرے۔ تیسرا مطالبہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے لیے تمام صوبوں میں تیس فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو۔ اس دوران گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ملک فیروز خان نون کو بڑی عجلت میں زیورخ بھیجا جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ اس پورے کھیل میں سہروردی کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی تھی کہ 54ء کے اوائل میں مشرقی پاکستان کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت میں جگتو فرنٹ فاتح رہی تھی اور سہروردی کو یہ احساس تھا کہ پنجاب سے ہاتھ ملائے بغیر انہیں اقتدار میں شراکت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اُس زمانہ میں یہ کھلا راز تھا کہ زیورخ میں سہروردی اور نون کے درمیان ایک سودا طے پا گیا ہے جس کے تحت سہروردی نے مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کے بارے میں تین کے ٹولہ کی تجویز کی اس شرط پر حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی حکومت جسے جنرل اسکندر مرزا نے برطرف کر دیا تھا بحال کر دی جائے۔
سہروردی نون ملاقات کے بعد زیڈ اے سلہری جو اُس زمانہ میں ٹائمز آف کراچی نکالتے تھے نہ جانے کس کے ایماء پر زیورخ گئے اور سہروردی کا ایک انٹرویو لے کر آئے جو انہوں نے اپنے اخبار میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ اس انٹرویو میں سہروردی نے دستور ساز اسمبلی کو غیر نمائندہ قرار دیا تھا اور اسے توڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بلا شبہ اس انٹرویو سے گورنر جنرل کے منصوبہ کو تقویت پہنچی۔ چوبیس اکتوبر سن چون کو جب گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو اس اقدام پر پورا ملک دم بخود رہ گیا اور سیاست دانوں پر ایسی دہشت طاری ہوگئی کہ سب مفلوج ہو کر رہ گئے۔ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان، شخص واحد تھے جنہوں نے دلیری کا مظاہرہ کیا اور ملک غلام محمد کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ دہشت کا عالم یہ تھا کہ مولوی تمیز الدین خان، گرفتاری بچنے کے لیے برقع پہن کر گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سندھ چیف کورٹ گئے تھے۔ سندھ چیف کورٹ نے جب مولوی تمیز الدین خان کے حق میں فیصلہ دیا تو ملک بھر میں خوشیاں منائی گئیں اور لوگوں کو جمہوریت کی بقا کے امکانات روشن دکھائی دینے لگے۔ لیکن ان امکانات کو اُس وقت زبردست زک پہنچی جب حکومت کی اپیل پر فیڈرل کورٹ نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ رد کردیا۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس محمد منیر کا جو رول رہا اور انہوں نے جس مصلحت کوشی سے کام لیا اس کو اب بھی ہدف ملامت بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے سے سبک دوش ہوتے وقت جسٹس منیر نے اپنے فیصلہ کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ اگر وہ حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے تو ملک میں افراتفری اور نراجیت پھیلنے کا خطرہ تھا۔ لیکن غالباً انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اس فیصلہ کے جمہوریت کے مستقبل پر کس قدر مہلک اثرات مرتب ہوں گے اور ملک فوجی آمریت کے ایک ایسے چنگل میں پھنس جائے گا کہ اس سے نکلنا محال ہو جائے گا۔
بہت کم لوگوں کو اس کے سنگین مضمرات کا ادراک تھا۔ لیکن بعض سیاست دانوں کو اس کے پیچھے ملک کے دو لخت ہونے کا بھی خطرہ تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے خلاف مولوی تمیز الدین کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ہم چند صحافی سندھ چیف کورٹ کے چائے خانہ میں بیٹھے تھے کہ قریب سے وزیر تجارت فضل الرحمن جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا گزرے۔ ہم نے انہیں چائے کی میز پر بلایا اور پوچھا کہ اب کیا ہوگا؟ ان کے جواب نے ہم سب کو دہلا دیا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت دور اندیش ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ فضل الرحمن صاحب نے کہا کہ اب ملک دو ٹکرے ہو جائے گا۔ سب صحافیوں نے بیک آواز کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ان کا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی فوج کے بل بوتے پر توڑی ہے اور اب فوج اقتدار پر قبضہ کر لے گی اور اس صورت میں مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے فوج کی حکمرانی تسلیم نہیں کرے گا اور الگ ہو جائے گا۔ فضل الرحمن صاحب کی یہ سنگین پیش گوئی سترہ سال بعد صحیح ثابت ہوئی۔ پاکستان میں جمہوریت پر یہ پہلا شب خون تھا جس نے پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دی اور شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں فوجی طالع آزمائوں کے لیے دروازے کھل گئے اور اب بھی ہمہ وقت فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خطرہ رہتا ہے۔