چین امریکا اختلافات میں شدت

150

امریکا اور چین کے درمیان تجارتی امور اور سیاسی محاذ آرائی کا درجہ حرارت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات سے قبل اپنی مہم کے لیے چین مخالف کارڈ استعمال کرنے کا جو منصوبہ بنا رہے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ صورتحال کو خراب سے خراب تر کیا جا ئے اور اس منفی رویے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی مخاصمت اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ علمی اور ثقافتی سطح پر بھی چین کے ساتھ امتیازی سلوک کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے متعلق نوید اب دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے اور آئرن کرٹین کا تصور ایک بار پھر سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ انڈین پیسفک کے حوالے سے 4 ممالک کے تزویراتی اتحاد کے بعد اب امریکا نے ایک اور قدم اٹھایا ہے، جسے ہرگزصحتمندانہ سوچ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور جس کے تحت امریکا میں موجود کنفیوشس انسٹیٹیوٹس کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ چینی حکومت کی سرپرستی میں چلتا ہے اور اس کے تحت بیشتر مراکز امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز میں واقع ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی جانب سے حالیہ بیان میں اس انسٹیٹیوٹ کے تحت چین کی حکومت کی
سرپرستی میں چلنے والے تمام تعلیمی مراکز بند کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پومپیونے کہا کہ امریکی طلبہ پر یہ انسٹیٹیوٹس ’’مضر اثرات‘‘ مرتب کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ان مراکز کو رواں سال کے اختتام تک بند کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
اس امر میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے کیوں کہ وزیر خارجہ کے اس بیان سے قبل وزارت خارجہ اور وزارت تعلیم نے رواں ماہ ہر ریاست کے تعلیمی عہدے داروں اور یونیورسٹیوں کو خبردار کرنے کے لیے مراسلے روانہ کیے تھے جن میں ان اداروں کی بندش کے حوالے سے انہیں خبردار کردیا گیا تھااور چینی زبان و ثقافت سیکھنے کے پروگراموں کو امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کا پراپیگنڈا پھیلانے کا آلہ کار قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکا میں ایسے 75 مراکز قائم ہیں اور ان مراکز کے پروگراموں کے بارے میں بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کی وجہ سے مقامی حکومتوں اور اسمبلیوں نے حال ہی میں کئی یونیورسٹیوں میں ان مراکز کو بند کرایا ہے ۔