امریکا بھارت کا پاکستان پر حملے کی تیاری

1603

دنیا بھر میں جنگ جاری ہے اور اب خطے میں بڑی طاقتوں نے براہ راست اپنی افواج بھیجنا شروع کر دی ہیں۔ قبل ازیں بھی امریکا اور روس کی افواج افغانستان میں آتی رہی ہیں لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو رہی ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ بندی ایک مرتبہ پھر بڑی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ آذربائیجان نے جنگ بندی پر مکمل پابندی کی لیکن اس کے برعکس آرمینیا نے روس،ایران اورفرانس کی مدد سے آذربائیجان کے شہری علاقوں پر شدی بمباری کی جس کے بعد آذربائیجان نے دوبارہ آرمینیا پر بھر پور حملہ کیا اور اب اس کی فتوحات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ آذربائیجان نے آرمینیا کے لیے آنے والی ایران کے راستے بھاری اسلحہ کی کھیپ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ادھر چینی صدر شی جن پنگ نے فوج کو پوری توجہ اور توانائی کے ساتھ جنگ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 15اکتوبر کو ہانگ کانگ کی سرحد سے ملحقہ صوبے گوان دونگ میں پیپلز لبریشن آرمی کی ’’میرین کور‘‘ کا معائنہ کرنے کے موقعے پر صدر شی جن پنگ نے فوج سے کہا کہ پورے خلوص اور وفاداری کے ساتھ جنگ کے لیے تیار رہیں۔ چین افواج کو پانچ مختلف کمانڈ ویسٹ، ایسٹ، نارتھ اور ساؤتھ میں تقسیم کیا گیا اور ان چاروں کمانڈکو مرکزی کمانڈ کنٹرول کرتا ہے۔ چین کی چاروں کمانڈ گزشتہ تین ماہ سے جنگ میں ہیں لیکن مرکزی کمانڈ اب تک براہ راست جنگ میں شریک نہیں ہے جس کو جنگ میں شریک کرنے کا اعلان صدر شی جن پنگ نے کر دیا ہے۔
امریکی نیوز نیٹ ورک سی این این کے مطابق صدر شی جن پنگ کے گوان دونگ صوبے کے دورے کا اصل مقصد 1980میں قائم ہونے والے ’’شینژن اقتصادی زون‘‘ کی چالیسویں سالگرہ میں شرکت تھا۔ چین کو دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بنانے میں یہ اقتصادی زون بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت اور کورونا وائرس کے باعث چین اور امریکا کے مابین کشیدگی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، اس لیے چینی صدر کی تقریر کو اہمیت دی جارہی ہے۔ چینی صدر ستمبر میں بھی کانگریس سے خطاب میں جنگ کا اعلان کیا تھا۔
واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور اسی لیے امریکا کے اس سے بڑھتے ہوئے تعلقات چین کے لیے ہمیشہ ناپسندیدہ رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے نہ صرف تائیوان کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی مراسم بڑھانا شروع کردیے ہیں بلکہ چند روز قبل اسے جدید ہتھیار اور راکٹ سسٹم فروخت کرنے کی تجویز کانگریس میں پیش کی گئی ہے اور کانگریس پر دباؤ ڈالا ہے وہ اسے فوری طور پر منظور کرے۔ جس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے چینی دفتر خارجہ نے امریکا سے کہا ہے کہ تائیوان کے ساتھ عسکری تعلقات استوار کرنے سے باز ر ہے۔ اس سے قبل چینی صدر شی جن پنگ بھی واضح کرچکے ہیں کہ تائیوان پر چینی حق تسلیم کروانے کے لیے عسکری قوت کا استعمال خارج از امکان نہیں۔ چین نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے تجارتی مفادات کا دفاع کرے گا۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی درآمدات پر محصول لگانے کے منصوبے کی حمایت کی تھی۔ چینی صدر کے مالیاتی امور کے مشیر لیو ہی نے یہ بات امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منچن کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران کہی۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شن ہوا کے مطابق لیو ہی نے امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منچن سے کہا کہ ’بیجنگ اپنے قومی مفادات کا بھرپور دفاع کرنے کے لیے تیار ہے‘۔ اب ایک اور خبر یہ آئی ہے امریکا نے چین کے درآمدات پر محصول لگانے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ چین نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ چین نے کہا ہے کہ وہ نتیجے کی پروا کیے بغیر کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہے۔
اس سلسلے میں the economic times کا کہنا ہے کہ: ’’سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور وزیرِ دفاع ایسپر 26-27 اکتوبر کو دہلی کا دورہ کریں گے، جہاں امریکا اور بھارت کے درمیان 2 + 2 ملاقات کے بعد سمندری معاہدے پر دستخط ہوں گے‘‘۔
سمندری معاہدہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے امریکی میرین اور بھارتی افواج جس کی کمانڈ بھارت میں امریکی کمانڈر کریں گے پاکستان اور چین کی افواج کی نقل وحرکت اور ان پر کس طرح سے حملہ کیا جاسکتا ہے کی مکمل تفصیل کو سٹیلائٹ کی مدد سے امریکا بھارتی حکومت معلومات فراہم گا، جس سے پاکستان اور چین کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کی فوج کے اصل کمانڈر امریکی ہوں گے۔ یہ سب کچھ 3نومبر کو امریکی انتخابات سے صرف 7دن قبل ہونے جارہا ہے اس پر صدر ٹرمپ کے مدِ مقابل امیدوار جو بائیڈن نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امریکا کی انتظامیہ اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ مرضی کے عین مطابق ہے۔ اس جنگ میں امریکا کے ساتھ آسٹریلیا، جاپان، بھی شامل ہوں گے۔
اس سلسلے میں چھ اکتوبر کو بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کے وزرائے خارجہ کی ٹوکیو میں ملاقات ہوئی جس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے خصوصی اہمیت چین کے ساتھ معاملات کو دیے جانے کی توقع تھی اور ایسا ہی ہوا۔ امریکا کواڈ کے رکن ممالک میں سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ جاپان تیسری اور بھارت پانچویں بڑی معیشت ہے۔ آسٹریلیا بھی ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ بڑی طاقتیں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور دنیا کے چین پر انحصار کو کم کرنے کے ارادے سے ٹوکیو میں اکھٹے ہوئی ہیں۔ امریکا نے بھارت کی دوستی اور پاکستان کی بھارت سے دشمنی میں چاپان، آسٹریلیا کو ملا کر ایک بڑا عسکر ی اتحاد بنا دیا ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت پاکستان کو گھیرنے میں مصروف ہیں۔ اُدھر دوسری جانب مائیک پومپیو بھارت کے دورے کے بعد بنگلادیش اور سری لنکا بھی جائیں جہاں وہ کوشش کریں گے کہ بنگلا دیش کو اس بات پر قائل کریں وہ بنگلا دیشی شہر ’’سلہٹ‘‘ سے فوری طور پر ’’سی پیک کے منصوبے‘‘ کو بند کردے اور اس کی جگہ وہ سلہٹ کے عثمانیہ ائر پورٹ کی تعمیر کا منصوبہ بھارت کے حوالے کردے۔ بھارت پانچ ماہ سے یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ سلہٹ کا منصوبے چین کو نہ دیا جائے۔ اس سلسلے میں بھارت کا کہنا ہے کہ چین سلہٹ سے بھارت کی مشرقی سرحدوں اور خاص طور پر آسام میں موجود علٰیحدگی کی تحریکوں کی پرورش کرنے میں ان کی مالی اور عسکر ی مدد کرے گا۔ اس لیے بھارت نے فوری طور پر امریکا سے مدد طلب کر لی ہے اور مائیک پومپیو اسی سلسلے میں بنگلادیش کا دورہ کر رہے ہیں۔ خطے میں ہونے والی اس بھر پور جنگی تیاری کے باوجود پاکستان میں سیاسی میں جنگ میں بدلتے دنوں کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ بھی جنگ کی تیاری کا ایک حصہ ہے۔