مفادات کا کھیل

557

ہمارے قدیم فلاسفہ نے سیاست کی تین قسمیں بتائی ہیں: ایک ’’تہذیبِ نفس‘‘ یعنی اپنی شخصیت کو نکھارنا، منفی پہلوئوں سے تطہیر اور مُثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا، تصوّف میں اِسے تخلیہ اور تجلیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس فکری ریاضت کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے سے نفس اور شخصیت کی تہذیب ہوتی ہے، گویا انسانی شخصیت کے اندر جو خیر وشر کی کشمکش بپا رہتی ہے، بشری استطاعت کے مطابق نفسِ انسانی میں شر کو مغلوب اور خیر کو غالب کرنا بھی سیاست کا ایک شعبہ ہے۔ دوسری قسم ’’تدبیرِ منزل‘‘ ہے، یعنی ایک گھر یا ایک خاندان، جو افراد کا مجموعہ ہوتا ہے، اُس کے نظم کو اپنی بشری استطاعت کے مطابق عدل وانصاف کے ساتھ متوازن رکھنا ہے۔ تیسری قسم ’’سیاستِ مُدَن‘‘ ہے، یعنی کسی ریاست یا حکومت کے اجتماعی نظم کو توازن اور حکمت وتدبیر کے ساتھ قائم رکھنا ہے کہ جس میں ہر حق دار کو اس کا جائز حق ملے، کسی کی حق تلفی نہ ہو،حفظِ مراتب کا پاس ہو، اسی بات کو ایک حدیث پاک میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جوابدہ ہے، حاکمِ وقت نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کی طرف سے جوابدہ ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور وہ اُن کی طرف سے جوابدہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور وہ اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جوابدہ ہے، نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اپنے زیرِ تصرف چیزوں کی طرف سے جوابدہ ہے اور میرا گمان ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اپنے زیرِ تصرف چیزوں کی طرف سے جوابدہ ہے اور تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اُس سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال کیا جائے گا، (بخاری)‘‘۔
الغرض ہر ایک سے اس کے دائرۂ اختیار کی بابت سوال ہوگا اور وہ اس کے لیے جوابدہ ہوگا کہ آیا اُس نے اپنے ماتحت لوگوں کی صلاح وفلاح، اُن کے حقوق کے تحفظ، عدل وانصاف کے قیام اور کفالت کی ذمے داریاں درست طریقے سے انجام دی ہیں، اسی طرح مالی معاملات میں بھی اپنے دائرۂ اختیار کے اندر جوابدہ ہوگا۔ رعیت کسی ملک کی حدود میں رہنے والے باشندوں کو کہتے ہیں، لیکن حدیث پاک میں اسے عمومی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس معنی میں سیاست فریضۂ نبوت قرار پایا، چنانچہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر (اور صلاح وفلاح کے امور) انبیائے کرام انجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آکر یہ فریضہ انجام دیتا، یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو (یہ فریضۂ نبوت انجام دینے کے لیے) خلفاء ہوں گے، (بخاری)‘‘۔ الغرض سیاست شِعارِ نبوت بھی ہے، عبادت بھی ہے اور خَلقِ خدا کی خدمت بھی ہے۔
لیکن دورِ حاضر میں سیاست کو مفادات سمیٹنے اور دَجل وفریب کے ہم معنی بنادیا گیا ہے، اس کی روح کو سلب کرلیا گیا ہے، مادیت غالب آگئی ہے اور دل ودماغ خدا خوفی کے جذبے سے عاری ہوگئے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد اکیسویں صدی میں امریکا کو وحدانی سپر پاور کا درجہ حاصل ہوگیا، یہ درجہ کسی اخلاقی برتری کی وجہ سے حاصل نہیں ہوا، بلکہ فوجی اور مادّی طاقت کے غلبے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے، مگر ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکا عالمی قیادت کا اخلاقی جواز کھوبیٹھا ہے، کیونکہ اُس نے دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کا شعار ترک کردیا ہے، صرف اپنی شرائط بزورِ قوت نافذ کرنے کے عمل کو اختیار کرلیا ہے، پہلے پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک ایسی پالیسیوں سے متاثر ہوتے تھے، مگر اب امریکا اپنے حلیف یورپین اور مغربی ممالک کو بھی نظر انداز کر رہا ہے، عالمی ماحولیاتی ادارے، عالمی تجارتی تنظیم اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہوگیا ہے، اس صورتِ حال سے امریکا کے اہلِ فکر ونظر خود پریشانی میں مبتلا ہیں، مگر اُن کے دستور اور قوانین میں اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ امریکی اہلِ فکرو نظر اور دانشور ببانگ دہل کہہ رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ ایک مغلوب الغضب انسان ہے، وہ ذہنی اعتبار سے متوازن فکر کا حامل نہیں ہے، وہ امریکی کانگریس اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے، وہ انسانی تکریم کا قائل نہیں ہے، نسلی عصبیت کے جذبات اُس پر حاوی ہیں اور وہ اپنے مخالفین کی تذلیل وتحقیر کر کے اپنے نفس کو تسکین پہنچاتا رہتا ہے۔ پس اسی سبب عالمی سیاست عدمِ توازن کا شکار ہے۔
ایک طرف اہلِ مغرب مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ حکومتی نظام میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، مگر اب وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ساری سرحدوں کو عبور کرچکے ہیں، حال ہی میں فرانسیسی صدر امانویل مکروں نے کہا ہے: ’’مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، پردے اور اسکارف پر پابندی کو سخت کرنے کے لیے نئے قانون میں سرکاری اسکولوں، یونیورسٹیوں، دفاتر، ساحلِ سمندر، پارک اور تفریحی مقامات کے ساتھ نجی اداروں میں بھی سرڈھانپنے پر پابندی ہوگی‘‘۔ الغرض سماج میں رنگ ونسل، تہذیب وثقافت کے تنوُّع، تکثیریت (Plurality) اور تکثیر پسندی (Pluralism) کے سارے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال نہیں ہونا چاہیے، لیکن خود اہلِ مغرب نے مذہبی بنیادوں پر مسیحی مذہب کے حامل ایسٹ تیمور کو انڈونیشیا سے، جنوبی سوڈان کو جمہوریہ سوڈان سے الگ کیا، سرزمینِ فلسطین سے اس کے اصل باشندوں فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اسرائیلی ریاست قائم کی، لبنان میں مذہبی بنیادوں پر ریاستی مناصب تقسیم ہوئے اور صدر کا مسیحی، وزیر اعظم کا سنّی اور اسپیکر کا شیعہ ہونا لازمی قرار پایا، یہ سب کچھ اُن کے نزدیک قابلِ قبول ہے۔ لیکن اگر مسلمان اپنے مذہب اور مذہبی اقدار کے تحفظ کی بات کریں تو اسے حقوقِ انسانی، انسانی اقدار اور آزادیِ اظہار کے منافی قرار دیا جاتا ہے، شاعر نے درست کہا ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
تازہ المیہ آذربائیجان کے ایک شہر ’’نگورنوکاراباخ‘‘ اور اس کے مضافات کا ہے، 1990 میں سوویت یونین کے سقوط کے بعد آرمینیا نے فوجی قوت کے بل پر 1993 میں اس پر قبضہ کرلیا، اقوامِ عالم نے اسے ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا، مگر اس پر آذربائیجان کی حاکمیت بحال کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ آخر کار آذربائیجان کی حکومت نے نگورنوکاراباخ کے علاقے کوواپس لینے کے لیے جنگ شروع کی اور بعض علاقے واپس بھی لے لیے، مگر روس اور یورپی ممالک نے بھی آذربائیجان کی مخالفت کی اور آرمینیا کا ساتھ دیا۔ مشہور محاورہ ہے: ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘، یعنی سیاست اقدار، اخلاقیات اور اصولوں کا کھیل نہیں ہے، صرف اور صرف مفادات کا کھیل ہے۔ اگر ہم اپنی تہتّر سالہ تاریخ کا جائزہ لیں اور پاکستان وامریکا کے تعلقات کا تجزیہ کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ طاقت ور اور کمزور کی دوستی میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔ اگر آپ وقتی طور پر کسی کی ضرورت یا مجبوری بن گئے ہیں تو آپ کی ناز برداری بھی کی جائے گی، کبھی دھونس دھمکی اور کبھی پیار چمکار سے کام نکالا جائے گا، لیکن کام نکلتے ہی توتے کی طرح آنکھیں پھیر لی جائیں گی، سیاست میں وضع داری نام کی کوئی چیز نہیں ہے، آج کل چین کے مفادات ہم سے جڑے ہوئے ہیں اور بوجوہ یہ عارضی نہیں ہے، جغرافیائی محلِ وقوع اور ہندوستان کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع جب تک قائم ہے، ان تعلقات کی ضرورت برقرار رہے گی، مگر کسی بھی ملک کی اصل طاقت اُس کی دفاعی قوت، داخلی استحکام اور معاشی خود کفالت ہے، جب تک ہم اس منزل کو حاصل نہیں کریں گے، دوسروں پر انحصار باقی رہے گا، خوش فہمی اور تعلّی مسائل کا دیرپا علاج نہیں ہے۔
آذربائیجان میں شیعہ مسلک کا غلبہ ہے، ایران کا ایک صوبہ بھی آذربائیجان کے نام سے موسوم ہے، یہ لوگ ترکی النسل ہیں، آذربائیجان کوہِ قاف کی ریاستوں (Caucasian States) میں سے ایک ہے۔ ہم مذہب ہونے کے باوجود ایران آذربائیجان کے بجائے آرمینیا کا حامی ہے اور عرب ممالک بھی ایران کا حریف (Rival) ہونے کے باوجود آرمینیا کے حامی ہیں، گویا آرمینیا کی حمایت میں حریف مسلم ممالک حلیف نظر آتے ہیں اور یہ کیفیت ایک ایسے وقت میں ہے کہ بعض عرب ممالک اور ایران میں تنائو آخری حدوں کو چھورہا ہے،
یمن کی خانہ جنگی میں دونوں فریق ملوّث ہیں۔ صرف ترکی اور پاکستان نے کھل کر آذربائیجان کی حمایت کی ہے، پاکستان کی حمایت تو اخلاقی اور سیاسی حد تک ہے، لیکن ترکی مادّی اور دفاعی حمایت بھی کر رہا ہے۔
عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، مصر، اردن اور قطر پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے پیش قدمی کی ہے، انہیں درپردہ بعض بااثر عرب ممالک کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ یہی صورتِ حال پاکستان کو درپیش ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ ناجائز ہے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینا لازم تھا، لیکن نہ بھارت نے اس عالمی میثاق کو پرِکاہ کے برابر اہمیت دی اور نہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے نفاذ کے لیے کوئی سنجیدہ سعی کی، بلکہ بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت کو ختم کردیا اور بعض علاقوں کو اپنی یونین میں شامل کردیا۔ اس ظلم کے خلاف ترکی کے علاوہ کوئی مسلم ملک پاکستان کی حمایت کے لیے آمادہ نہیں ہے، صرف ایران نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی ہے اور مہاتیر محمد کے دور میں ملائیشیا نے بھی واضح موقف اختیار کیا، دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں اتنی حمایت بھی غنیمت ہے۔