سماج کی تباہی کا عالمی ایجنڈا

568

دنیا بھر میں عورتوں اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی ممالک میں یہ سماجی عفریت بے قابو ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے ایشیائی خطے میں بھارت سرفہرست ہے، جہاں اترپردیش کے شہر ہاتھرس میں حال ہی میں ہندوؤں کی نچلی ذات دلت سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کو اونچی ذات کے ہندوؤں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ اس واقعے کے بعد سے ملک بھر میں شدید احتجاج جاری ہے، کیوں کہ مودی کی ریاستی سرکار اس واقعے کے شواہد مٹاکر اونچی ذات کے ہندوؤں کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔ تاہم جنسی درندوں کی سرپرستی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اب تنہا نہیں رہی ہے، کیوں کہ اقوام متحدہ کی اعلیٰ انسانی حقوق کمشنر مچل بیچلیٹ نے مودی سرکار کی ہمنوائی کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مرتکب افراد کو سزائے موت دیے جانے کی مخالفت کردی ہے۔ بدھ کے روز بنگلادیش میں شدید عوامی دباؤ کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بہ دلِ ناخواستہ ایک قانون منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت ایسے مجرموں کو سزائے موت سنائی جاسکتی ہے۔ اگلے ہی روز اس قانون پر عمل کرتے ہوئے 2012ء میں ایک 15 سالہ بچی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے اور اس جرم میں معاونت کرنے پر 5 افراد کو سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ منصفانہ فیصلہ سامنے آتے ہی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ادارے کی سربراہ مچل بیچلیٹ کے پیٹ میں مروڑ اٹھی اور انہوں نے بیان داغ دیا کہ ’’عصمت دری گھناؤنا جرم ضرورہے، لیکن اس کا حل سزائے موت نہیں۔ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا میں کئی کیس رپورٹ ہوئے ہیں، تاہم اس طرح کے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت ظالمانہ سزا ئیں دے کر ہمیں خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ گویا ان کے نزدیک دوسرے انسانوں کے حقوق پامال، ان کی روح کو قتل اور سماج کا گلاگھوٹنے والے جنسی درندے اس قابل ہیں کہ ان پر ترس کھایا جائے اور انہیں چند برس کی سزا دے کر ایک بار پھر معاشرے میں دندناتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مچل بیچلیٹ کا یہ بیان اس عالمی ایجنڈے کا ایک حصہ ہے، جو محبت، رواداری، شفقت اور نہ جانے کن کن خوش نما عنوانات سے انسانی سماج کی بنیادیں کھوکھلی کررہا ہے۔ یہی عالمی ادارے ہیں، جو انسان کو اتنا آزاد باور کرانے میں اپنے تمام تر وسائل جھونک رہے ہیں کہ وہ ایک ایک کرکے ہر مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی بیڑی اپنے ہاتھ پیروں سے اتار اتار کر پھینک رہا ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت فنونِ لطیفہ اور تفریح طبع کے نام پر فلموں، ڈراموں اور دیگر پرگراموں کے ذریعے ایک صدی تک انسانی سماج کی بیخ کنی کی گئی، اور پھر انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان برپا کیا گیا، جس کی وجہ سے آج انسان جنسی درندے بنتے جا رہے ہیں۔ اس تباہی کی روک تھام صرف سخت سزاؤں ہی سے ممکن ہے۔ اسلام نے بھی زنا جیسے گھناؤنے فعل پر رجم اور کوڑوں کی سخت سزائیں رکھی ہیں، اور معاشرے کی بقا کے لیے قاضی وقت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جنسی تشدد کے ذریعے معاشرے میں خوف ودہشت پھیلانے والوں کو سخت سے سخت سزا دیں۔ یہی عدل کا تقاضا ہے اور اسی سے انسانی سماج برقرار رہ سکتا ہے۔