حکومت زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھے

439

لاہور میں چکیوں کے مالکان نے آٹے کی قیمت میں 5 روپے فی کلو اضافہ کردیا، جس کے بعد عوام کی یہ سب سے بنیادی ضرورت 80 سے 85 روپے کلو فروخت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ادارۂ شماریات نے گزشتہ ہفتے کو بھی غریبوں کے لیے بھاری قرار دیا ہے، جس کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور مہنگائی کی شرح 9.20 فیصد بڑھی۔ تاہم اپنی ناکام پالیسیوں، ذاتی نااہلی اور ریاست پر اپنی گرفت کمزور ہونے کا اعتراف کرنے کے بجائے حکومت کے معاشی ارسطو وہی گھسا پٹا راگ الاپ رہے ہیں کہ انہیں یہ سب مسائل ورثے میں ملے اور اس کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ عوام حکومت کی جانب سے بہانے بازی کی اس کثرت کو بدانتظامی پرمحمول کرنے لگ گئے ہیں، بلکہ عوام ہی نہیں خود حکمراں جماعت تحریک انصاف کے اندر صدائے احتجاج بلند ہونے لگی ہے۔ جمعہ کے روز حزب اختلاف کی 9 جماعتوں نے حکومت کے خلاف ’’پی ڈی ایم‘‘ کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک شروع کی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ساری کابینہ اس تحریک کی ٹوہ میں لگی ہوئی ہے، اور انہوں نے عوامی مسائل سے غفلت کی اپنی روش برقرار رکھی ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم کی سرگرمیوں کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی پارلیمانی جماعت کا اجلاس بلایا، جس میں ارکان اپنی ہی کابینہ یعنی وزیراعظم کے مشیروں اور وزیروں پر پھٹ پڑے۔ رکن قومی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل اور نور عالم خان نے وزیراعظم کے منہ پر ان کی ٹیم یعنی کابینہ کو نکما قرار دیا۔ ثناء اللہ مستی خیل تو وزیراعظم کو یہاں تک کہہ گئے کہ آپ کے وزیر ومشیر ٹکے کے نہیں۔ یہ نکمے ہیں۔ انہیں گندے انڈے پڑیں گے۔ جب تک آپ ٹیم ٹھیک نہیں کرتے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ تاہم وزیر اعظم نے گھر کی اس گواہی کو قبول کرنے کے بجائے حسب روایت تمام تر ملکی مسائل کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی، کیوں کہ وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ کسی کو رکھنا یا باہر کرنا ان کے بس میں نہیں۔ اس پر طرح یہ کہ وزیراعظم نے آٹے اور چینی کے بحرانوں پر قابو پانے کی ذمے داری ان ہی ’’قابل‘‘ وزرا کے کاندھوں پر ڈال دی، جو اپنی ناکام منصوبہ بندی کے باعث ان بحرانوں کے براہِ راست ذمے دار ہیں۔ اگر وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ بلی کو دودھ کی رکھوالی پر رکھ کر کھیر پکا لیں گے، تو وہ انتہائی ’’بھولے‘‘ ہیں یا شاید وہ ’’بھولا دیکھنا‘‘ پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے کے دوران مختلف ٹی وی چینلز پر جناح اسٹیڈیم کے اندر اور باہر موجود شرکا سے گفتگو بھی نشر کی گئی۔ ایک بڑی تعداد کا یہ کہنا تھا کہ وہ حزبِ اختلاف، پی ڈی ایم میں شریک سیاسی جماعتوں، نواز شریف، آصف علی زرداری یا مولانا فضل الرحمن کی محبت وعقیدت میں یہاں نہیں آئے ہیں، بلکہ عوامی مسائل میں حکومت کی عدم دلچسپی اور نااہلی نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ سڑکوں پر نکل کر حکمرانِ وقت کے خلاف بلند ہونے والی صدائے احتجاج کی گونج کو مزید بلند کریں۔ موجودہ حکومت کی عاقبت نااندیشی پہلے دن سے عیاں ہے، لیکن اس خطرناک موڑ پر تو وزیراعظم کو عقل آہی جانی چاہیے۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کی ساری توجہ حزبِ اختلاف کے جلسے جلوسوں پر غور وفکر کرنے اور انہیں ناکام بنانے پر مرکوز ہے۔ وزرا اور مشیر پریس کانفرنسوں کی تیاری اور ادائیگی کی مشق میں مصروف ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وزیراعظم جس عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر نظرانداز کررہے ہیں، وہ پی ڈی ایم کی جھولی میں اپنا سارا وزن ڈالتے ہوئے حکومت کا کچومر نکال دیں۔