قوم کا نبض شناس

323

حکیم محمد سعید خدا ترس، دین دار اور سچے مسلمان تھے یہی وجہ ہے کہ وہ انسان دوستی ، علم و حکمت اور دوسروںکے لیے جینے پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ ذاتی مفادات پر اجتماعی قومی اور سماجی مفادات کو ہر صورت ترجیحی دیتے تھے۔ حکیم صاحب ساری زندگی اپنے وسائل، اپنی توانائیاں اور اپنی صلاحیتیں قومی کردار کی تعمیر پر صرف کرتے رہے۔ یہ وہ عظیم کام تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے۔ حکیم صاحب نے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کا عہد کیا تھا اور وہ شہادت کی منزل پر پہنچنے تک اپنا عہد نبھاتے رہے، حسن سلوک اور عمدہ برتائو کا یہ عالم تھا کہ جو ایک بار ان سے وابستہ ہوا ، انہی کا ہو کے رہ گیا۔حکیم محمد سعید حق و انصاف کی سچی اور روشن مثال تھے ۔حکیم صاحب ایک بہترین اور نبض شناس معالج تھے ۔ وہ ہمیشہ باوضو اور روزہ کی حالت میںمریضوں کو دیکھا کرتے تھے انھیں اس بات کا پختہ اور کامل یقین کہ ِشفاء منجانب اللہ ہے۔انہوں نے اپنی زندگی میں لاکھوں مریضوں کوبلا معاوضہ دیکھا وہ پاکستان کے چاروں بڑے شہروں کراچی،لاہور،راولپنڈی اور پشاور میں باقائدگی سے علی الصبحمطب کیا کرتے تھے۔ طب مشرقی جو ایک بڑی مدت سے تحقیق اور نئے نئے تجربات سے محروم ہو چکی تھی، اسے جدید خطوط پر نشوونما دینے میں انہوں نے زبردست کردار ادا کیا۔ حکماء کی تنظیم سازی کی اور انہیں ضابطوں اور اصولوں کا پابند بنایا۔ دواسازی میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی اور ایک اعلیٰ معیار قائم کیا انہوں نے اپنی انتھک محنت اورلگن سے طب یونانی کو باہم عروج د یا۔ انسانی صحت کے حوالے سے ان کی سوچ انقلابی تھی کہ طب، ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے مابین ایک اتحاد ثلاثہ کے ذریعے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں تاکہ انسانیت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے اور غریبوں کوایک ذیادہ موثر اور سستا علاج میسر آسکے انہوں ہمدرد کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون پاکستان بھی متعارف کرایا۔ حکیم محمد سعید حق و انصاف کی سچی اور روشن مثال تھے ۔حکیم صاحب ایک بہترین اور نبض شناس معالج تھے ۔ وہ ہمیشہ باوضو اور روزہ کی حالت میںمریضوں کو دیکھا کرتے تھے انھیں اس بات کا پختہ اور کامل یقین کہ ِشفاء منجانب اللہ ہے۔انہوں نے اپنی زندگی میں لاکھوں مریضوں کوبلا معاوضہ دیکھا وہ پاکستان کے چاروں بڑے شہروں کراچی،لاہور،راولپنڈی اور پشاور میں باقائدگی سے علی الصبحمطب کیا کرتے تھے۔
نونہالوں سے محبت حکیم صاحب کی زندگی کا اہم حصہ تھی اور وہ یہ بخوبی سمجھتے تھے نونہال ہی پاکستان کے مستقبل کے معمار ہیں اسی لیے انکی اس محبت کا اظہار انہوں نے 1953 میں رسالہ ہمدرد نونہال نکال کر کیاجو آج تک ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد کی نگرانی مسلسل شائع ہورہا ہے ۔ حکیم صاحب نونہالوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت کیلیے ہمیشہ فکرمندرہے اور وہ1964 سے اکتوبر 1998میں جام شہادت نوش کرنے تک جاگو جگائو کا کالم بلا ناغہ لکھتے رہے ۔ انہوں نے نونہالوں کو مطالعہ کی عادت ڈالنے کے لیے نونہال ادب کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا جس نے تقریباً 450سے زائد کتابیںشائع کیں ۔ ان کتابوں میں مزے دار کہانیاںبھی ہیں، سفرنامے بھی اور دینی ، تاریخی، سائنسی، معلوماتی کتابیں ہیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ علم کے اجالے کے بغیر انسان نابینا ہے۔ شہادت سے قبل ان کی خواہش تھی کہ وہ نونہالوں اور نوجوانوں کے لیے جو بھی کتاب لکھیں وہ اپنے استادوں کے نام منسوب کریں۔ انہوں نے نونہالوں کی تربیت کے لیے 1985ء بزم ہمدرد نونہال کی داغ بیل ڈالی جو بعدازاں 1995 ء ہمدرد نونہال اسمبلی کے نام سے آج تک جاری ہے ، کے ذریعہ نونہالوں میں جذبہ حب الوطنی سے مزین کر کے خدمت انسانی اور تعمیر وطن کی جانب راغب کیا ۔ انہوں نے نوجوانوں کی فکری اور اخلاقی تربیت کے لیے آواز اخلاق کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور ان کی ذہنی آبیاری کے لیے آواز اخلاق کے عنوان سے ایک رسالہ بھی جاری کیا انہیںکا مل یقین تھا کہ نوجوانوں کی صحیح نظریاتی اور فکری رہنمائی اور اعلیٰ درجے کی سیرت سازی کے ذریعے معاشرے کے بگاڑ پر قابو پایا اور ایک صحت مند انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ حکیم محمد سعید اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، ان کی تعلیم ، صحت اور طب کےمیدان میں گراں قدر خدمات پر انھیں مدتوں یاد رکھا جاے گا ۔
OOO