کراچی ملک کی آواز بن گیا

630

1985ء کی بات ہے جب تک کراچی پورے ملک کا شہر تھا سب کو بلاتا پالتا، اپنا بناتا اور دوسروں کے لیے جگہ بناتا تھا یہاں مقامی اور غیر مقامی کا جھگڑا نہیں تھا ۔ لیکن1985 میں کراچی میں ایم کیو ایم بنا دی گئی جو1987ء میں بلدیاتی انتخابات جیت گئی پھر اس شہر نے کروٹ لی یہی شہر جو پورے پاکستان کا میزبان تھا وہ پورے پاکستان میں عجیب سی نظروں سے دیکھا جانے لگا ۔ کراچی اس وقت بھی پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر تھا ۔پاکستان کا بڑا کاروباری شہر ۔ اس شہر میں ساری دنیا کے لوگ آباد تھے لیکن رفتہ رفتہ گولیاں ، پٹاخے ،قتل ، بوری بند لاشیں ،بھتا ، دہشت گردی اس شہر کی شناخت ہو گئے ۔ گزشتہ35 برس سے کراچی کی یہی شناخت ہے لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم نے کراچی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ بجلی کی بندش ، جعلی بلوں ، تانبے کے تاروں کی چوری اور دیگر بد عنوانیوں کا پردہ چاک کیا ۔ پھر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے تین کروڑ آبادی والے شہر کی مردم شماری میں ہیر پھیر کیا گیا اور تین کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ ظاہر کر کے اس شہر کا حق مارا گیا ۔ جماعت اسلامی نے مردم شماری کے فراڈ کا پردہ بھی چاک کیا ۔ اور نئی مردم شماری کا مطالبہ کیا۔ سب سے بڑھ کر کراچی کو ایک مرتبہ پھر ملک کا مرکزی شہر بنا یا اور امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق صاحب نے کراچی کو ملک کی آواز بنا دیا ۔ انہوں نے14اکتوبر کو ملک گیر یوم یکجہتی کراچی کی کال دی ۔ خود اسلام آباد میں حقوق کراچی ریلی سے خطاب کیا ۔ اسی طرح لاہور‘پشاور،کوئٹہ ، مظفر آباد سمیت متعددشہروں میں یکجہتی کراچی ریلیاں منعقد ہوئیں پورے پاکستان کے سامنے کراچی کے مسائل کو پیش کیا گیا ۔کراچی کو ایک زبان سے جوڑنے اور دوسرے کو اس کا دشمن بنانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ۔ اب جما عت اسلامی نے کراچی کا مقدمہ پورے ملک میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے ۔ کراچی کے بارے میں عوا م میںمنفی تاثر ختم کرنے میںمدد ملی ہے ۔ کراچی میں موجود لاکھوں پختون، لاکھوں سندھی ، لاکھوں پنجابی اور دیگر زبانیں بولنے والے اس شہر اور اس کے نتیجے میں اس ملک کی معیشت مستحکم کرتے ہیں ۔ ان کوبجلی نہ ملے تو پورے شہرکوبجلی نہیں ملتی ۔ کسی خاص زبان والے کی بجلی تو منقطع نہیں ہوتی ۔ اسی طرح ٹو ٹی ہوئی سڑک اور بہتے ہوئے گٹر کے پانی میں سے ہر زبان والے کو گزرنا پڑتا ہے ۔ حافظ نعیم اور ان کی ٹیم نے کراچی کا مقدمہ پر زور انداز میں لڑ کر اس کا قومی شہرکا درجہ بحال کر دیا ۔ اسلام آبادمیں خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ پورا ملک حقوق کی جنگ میں کراچی کے ساتھ ہے ۔ ان اجتماعات میں یہ سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم 11سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کر کے کہاں غائب ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی کو پیکیج کی بھیک نہیں اس کا حق دیا جائے ۔ با اختیار شہری حکومت ، شفاف انتخابات ، ٹریفک کا جدید نظام ،پانی کی فراہمی ، کے الیکٹرک کی بد معاشی کا خاتمہ ، یہ مسائل اگر صوبائی حکومت کے حوالے کیے گئے تو وہ پہلے ہی کراچی دشمنی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے ۔ اس کے ہاتھ میں کراچی محفوظ نہیں اور اگر وفاقی حکومت یا پی ٹی آئی کے حوالے کراچی کیا گیا تو یہ اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ تین کروڑ کے شہر کو کس طرح چلایا جائے ۔ اس لیے ان تمام مسائل کا حل شفاف انتخابات اور حقیقی قیادت ہے اور وہ صرف جماعت اسلامی ہے ۔ جماعت اسلامی عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی صورت میں یہ ثابت بھی کر چکی ہے کہ کراچی کو جماعت اسلامی ہی سنبھال سکتی ہے ۔ اسی کو ثابت کرنے کے لیے جماعت اسلامی آج 16 اکتوبر سے عوامی ریفرنڈم کرا رہی ہے تاکہ عوامی فیصلہ بھی سامنے لے آئے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جو لوگ کراچی پر مسلط کیے جاتے رہے ہیں ان کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کر کے انہیں اب تک ہیرو کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کراچی پر مسلط کی جانے والی ایم کیو ایم کے ظاہری بانی کو تو غدار اور ملک دشمن قرار دے دیا گیا لیکن وہ تو1992ء سے ملک میں نہیںتھے ۔ 1992ء سے2015ء تک23برس ان کی ٹیم یہاں کام کرتی رہی تھی ۔ وہی ٹیم آج کل تین چار مختلف ناموں سے کراچی میں موجود ہے ۔ ان کی سر پرستی کرنے والے سوچیں یہ کیسا لطیفہ ہے ۔ را کے لیے28برس کام کرنے کا اعتراف کرنے والے مصطفیٰ کمال کراچی کی قیادت کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ الطاف حسین کے ہر جرم کے ساتھی فاروق ستار ایک بار پھر کراچی کی میئر شپ کے خواہاں ہیں ۔ یہ کیسا تماشا ہے کیا صرف ایک آدمی کراچی کو تباہ کر رہا تھا ۔ پوری ٹیم محفوظ ہے اور بانی لندن میںمحفوظ۔