غلبہ دین کی جدوجہد سیرت رسول اللہ ﷺ

1363

نبی اکرمؐ نبی آخرالزماں ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ اور آپ کی تعلیمات کو بھی محفوظ رہنا ہے۔ نبی اکرمؐ کے بعد آپ کی اْمت آپ کی قائم مقام ہے کہ اس مشن کو لے کر اْٹھے اور اس ہدایت کی علَم بردار بنے۔ آپ کی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے، اس کے سانچوں میں ڈھلے، اور دْور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپ کا پیغام پہنچائے۔ خود نبی اکرمؐ نے اس بارے میں جو اسوہ حسنہ چھوڑا ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اْمت کی حیثیت سے آپ کے مشن کے علَم بردار ہیں، انھیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے لینی چاہیے۔
احساسِ ذمے داری کی شدت
واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ مسجد میں تشریف لائے، اپنے منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ عبداللہ بن مسعودؓ وہاں بیٹھے تھے، ان سے کہا کہ عبداللہ! مجھے قرآن سناؤ۔ عبداللہ بن مسعودؓ قدرے حیران ہوئے، عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں قرآن سناؤں؟ یہ قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے، آپ ہی سے ہم نے سنا ہے، آپ ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، عبداللہ! آج تو جی چاہتا ہے کہ کوئی پڑھے اور میں سنوں۔ حکم تھا، آپ اسی طرح منبر پر تشریف فرما رہے اور عبداللہ بن مسعودؓ نے نیچے بیٹھے ہوئے سورئہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے۔ ترجمہ: ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اْمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدؐ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘۔ (النساء: 14) تو عبداللہ بن مسعودؓ کو اندازہ ہوا کہ جیسے نبی اکرمؐ انھیں ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں، حَسبُک حَسبُک، عبداللہ ٹھہرجاؤ، عبداللہ ٹھہرجاؤ۔ سر اْٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہے۔ نبی اکرمؐ اس گواہی، شہادت اور ذمے داری کے احساس سے گویا دبے جا رہے ہیں، اور آنکھوں سے آنسوؤں کا رواں ہونا تو پورے جسم و جان کی کیفیت کی گواہی دے رہا ہے کہ اندر کیا ہلچل ہے، کیا کیفیت ہے کہ جس سے آپ گزر رہے ہیں۔
گویا نبی کریمؐ اس لمحے سے پریشان ہیں جب پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اس پیغام کو پہنچایا، لوگوں کے دلوں کو گرمایا، ان کے جسم و جان کو ان راہوں پر لگایا، تم نے لوگوں کو منزل کا شعور دیا، تم نے انھیں جدوجہد کا پیکر بنایا، تم نے چاردانگ عالم میں اس نئی کش مکش کی داغ بیل ڈال کر اس کی طرف ان کو بلایا؟ یہ احساس اور احساس کی شدت آپ کو رْلا رہی ہے۔
یہ اْمت آپ کی قائم مقام ہے اور آپ رہتی دنیا تک اْمت کو اس حوالے سے رہنمائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں وہ اْن پوری بستیوں کے ذمے دار ہیں جہاں وہ اپنے شب وروز بسر کرتے ہیں، اور علیٰ ہذا القیاس ملک اور قوم کے۔ کبھی اتفاقاً آدمی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ قرآن تو میں بھی پڑھتا ہوں کہ اگر پوچھ لیا جائے کہ ان بستیوں میں تم نے کیا کام کیا، کتنے دلوں پر دستک دی، کتنے دل کے دریچے کھولنے کا تم ذریعہ اور سبب بنے، اور کتنے دریچے ہاے دل ایسے تھے جو تکتے رہ گئے کہ کوئی آئے اور بتائے تو سہی کہ اسلام کہتے کس کو ہیں!
اللہ سے مضبوط تعلّق
اگر ہم نے نبی کریمؐ کی قائم مقامی کرنی ہے، اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسوئہ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔ جب تک حالتِ قیام سے، قرآنِ پاک کے ساتھ شغف سے، فی الواقع ایک مستحضر علم سے، اور وسعتِ علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے، کوئی بڑا کام تو دْور کی بات ہے، اس ذمے داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اْٹھایا جاسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں، اپنے شب و روز کے معمولات اور اپنے مشاغل ومصروفیات میں تبدیلی لانی چاہیے، اور اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ جو ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہر شخص اپنے بارے میں خود جانتا ہے، اسی کے مطابق اس کو اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اس کا دوسرا نام تعلق باللہ رکھ دیں، یعنی ہر بندے کا اپنے رب کے ساتھ جو تعلق اور استواری ہے، مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے، لیکن بدرجۂ اولیٰ کہ ؎
جن کے رتبے ہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے
گویا جو لوگ ان راہوں پر چلے ہیں اور لوگوں پر ذمے دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم اور مضبوط کریں۔ جس کا کام کررہے ہیں اسی کے ساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا، جس کی دعوت لے کر اْٹھے ہیں اسی کے ساتھ تعلق اگر ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا، تو سوچیے کہ کہاں سے طاقت ملے گی، اور کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔ نصرت و تائید کی بات بسا اوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔ یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر پیدا ہوتا ہے، قدموں کے اندر جماؤ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان نظر آتا ہے، اور حالات کی خرابی کے باوجود تحمل کا کوہِ گراں نظر آتا ہے، اسی کو نصرت اور تائید کہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔ کیسے وہ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں، کیسے وہ ان کے پیر بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں، اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں۔
سیرتِ رسول سے رہنمائی
سیرت کے ہر واقعے کے اندر رہنمائی موجود ہے۔ کچھ نہیں تو آنکھوں کے لیے نمی، دلوں کے لیے گداز اور قلوب کے لیے خوف وخشیت کی کیفیت موجود ہے۔ اگر ان تمام واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ جوڑ لیں کہ ایک واقعہ پیش آیا، پھر دوسرا پیش آیا، صبح کو یہ ہوا، پھر دوپہر کو یہ اور شام کو یہ ہوا۔ پھر لوگوں نے کانٹے بچھا دیے۔ پھر لوگ پتھر برسانے اور گالیاں دینے لگے۔ پھر لوگوں نے حالتِ نماز میں اوجھ رکھ دی، پھر لوگوں نے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یہ تمام واقعات کسی ترتیب کے ساتھ جمع کرلیں تو جوڑتے جوڑتے لگے گا کہ واقعی یہ تو پہلے دن سے کسی منزل کا تعین کرکے کسی انقلاب کی طرف رہنمائی ہو رہی ہے، اور لوگوں کو ایک بڑے مقصد کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ یہ اتفاقی اور حادثاتی طور پر رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔ سیرت کے تمام واقعات ایک مقصد کی طرف لے جاتے ہیں، منزل کا شعور دیتے ہیں۔
راہِ دعوت کی مشکلات
واقعہ طائف پر نظر ڈالیے۔ نبی اکرمؐ نے مصائب و شدائد کا دور مکے میں گزارا ہے۔ مکے میں جب دعوت و تبلیغ اور اللہ کی طرف بلاتے ہوئے آپ کو ایک مدت گزر گئی، تو یہ احساس ہوا کہ بہت تھوڑے لوگ اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں اور اس کو بہت کم پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ گویا ایک تجزیہ کیا، جائزہ لیا، اور پھر آپ نے طے کیا کہ مکے کے لوگ تو بات قبول ہی نہیں کرپا رہے ہیں، چلو طائف کا رْخ کرتے ہیں، اور طبیعت اور مزاج کے اندر یہ بات رچی بسی تھی کہ کیا عجب کہ طائف کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں، اور یہ دعوت محض نظریاتی اور لفظوں کا پھیر نہ رہے بلکہ سلطنت بن جائے۔ کیا عجب کہ یہ دعوت ریاست قرار پائے، یہ دعوت مقتدر ہوجائے، اس دعوت کا سکّہ رواں ہوجائے، یہ دعوت قیل و قال کے حوالوں سے بھی جانی پہچانی جائے اور احکامات و ہدایات کے نازل ہونے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی۔ کس قدر وژن ہے، کیسی بصیرت و بصارت ہے، کس قدر دْوراندیشی اور دْوربینی ہے کہ اس دعوت کو یہاں پر وہ فروغ حاصل نہیں ہو رہا، لیکن وہ تمکن اور غلبہ جو اس دعوت کے اندر پنہاں ہے، اور حالات کی بہتری اسی وقت ہاتھ آئے گی جب یہ دعوت غالب آجائے گی۔ اس تجزیے اور ان امیدوں کے ساتھ، اس سوچ اور فکر کے ساتھ آپ نے طائف کا سفر کیا۔
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت اپنی ہے اور یہ خود ایک موضوع ہے، اور لوگوں نے اس پر بہت لکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو پوری کائنات کا فرماں روا ہے، قہار و جبار ہے، طاقت کے ہرسرچشمے کا مالک ہے، وہ اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھتا ہے کہ ستایا جا رہا ہے، اْلٹے پیروں لوٹایا جارہا ہے، جابجا پتھروں اور گالیوں کی یورش میں ایک مضبوط انسان کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض لوگ خود ہی پوچھتے ہیں اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر انسانی الفاظ اور جذبات کا سہارا لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندے کو ان کیفیات سے گزار رہا ہوگا، مشکلات و مصائب میں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ اصل اسوئہ حسنہ ہے۔