عبدالغفار عزیز ؒ بھی رخصت ہوئے۔۔۔۔۔لیاقت بلوچ

699

اوہ ہو … عبدالغفار عزیز انتقال کر گئے، 5اکتوبر 2020ء صبح 4:00 بجے ایس ایم ایس پیغام پڑھا، اندازہ تو تھا کہ یہ خبر کسی وقت آسکتی ہے لیکن ایک دن پہلے بیٹے فوزان نے بتایا کہ بابا کی طبیعت اب پہلے سے بہت بہتر ہے، لیکن اپنے وقت، اپنی باری، اللہ کی طرف سے بلاوے پر ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ کوئی عمر تھی، یہ تو اس قدر متحرک، ذہین اور ذی شعور کے تجربات کا اسلامی تحریک کو بڑے فوائد ہونا تھے یہ کیا ہوا عبدالغفار عزیز رخصت ہوگئے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ یہ دار فانی ہے۔ مہلت عمل کی تکمیل کے بعد ہر فرد کو اپنے اللہ کی طرف لوٹ جانا ہے۔ بہت ہی خوش نصیب اور کامیاب انسان وہ ہی ہے جو زندگی کا ہر لمحہ، اللہ کی عطا کردہ ہر صلاحیت کو پورے اخلاص، جذبہ، جنون اور ولولوں سے غلبہ دین کے لیے صرف کردے۔ عبدالغفار عزیز نفس مطمئنہ، جنت کے سفر کی طرف روانہ ہوگئے۔
حکیم عبدالرحمن عزیز مرحوم کے خاندان کے ساتھ مورو سندھ، پتوکی اور لاہور سے ایک طویل مدت کا ساتھ تھا، سیف الرحمن عزیز، حبیب الرحمن عاصم کے ساتھ تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ایام ہی سے بڑا اچھا اور محبت کا تعلق پیدا ہوا، حکیم عبدالرحمن عزیز مرحوم بڑی شفقت، خوشگوار اور علم و فضل والی شخصیت تھے۔ اللہ نے اولاد بھی بہت ذہین، دین داراور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی فکر اور مشن کے مطابق جدوجہد کرنے والی دی، ان میں ہر فرد بہت قیمتی ہے، عبدالغفار عزیز ؒ ان سب میں منفرد اور انمول ہیرا تھا۔ حق مغفرت کرے، آمین۔ یہ اولاد اپنے والدین کے لیے اپنے نیک اعمال سے صدقہ جاریہ بنی ہے ان شاء اللہ آگے ان کی اولاد بھی اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنی رہیں گی، الحمدللہ تیسری نسل بھی اس فلاح و فوز کے راستہ پر ہے۔
عبدالغفار عزیز ؒ کے ساتھ ان کے خاندان، بھائیوں کے حوالہ سے بہت اچھا تعلق بنا، قطر میں جب زیر تعلیم تھے تو ان کی ذہانت، متانت، فقاہت بلیوں اچھل رہی تھی، خوش اخلاقی، انکساری اور اپنی بات کو مدلل طریقے سے پیش کرنے پر ہی معلوم ہوگیا کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اور پھر بس یہ اہلیت اور خدا داد صلاحیتیں کسی دنیاوی جاہ و منصب کی تلاش کے بجائے اسلامی تحریک بلکہ اسلامی تحریکوں، اقامت دین اور اتحاد امت کے لیے انتھک جدوجہد کے لیے وقف ہوگئیں۔ عبدالغفار عزیز ؒ کی موت صرف جماعت اسلامی ہی نہیں مولانا خلیل احمد حامدی ؒ کے بعد دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں، اسلامی تنظیموں، عالمی میڈیا، تھنک ٹینکس، علمی اور تعلیمی اداروں کے ساتھ بہترین رابطہ کاری کا فریضہ انجام دیا۔ اردو، انگریزی پر تو عبور تھا ہی لیکن عربی زبان وکلام پر جو گرفت اور عبور تھا وہ اہل زبان کے دل موہ لیتا اور یہ اپنے لیے سب کے دلوں میں گھر بنالیتے، گفتگو، زبان وکلام کی چاشنی قرآن کے ساتھ والہانہ تعلق، ذکر و اذکار سے لگائو نے انہیں واقعی منفر د بنادیا۔ تمام اسلامی تحریکوں کے بہترین پہلوئوں کو جماعت اسلامی میں سمولینے اور کارکنان میں منتقل کردینے کا کیا خوب جذبہ تھا۔ عالمی ترجمان القرآن کے اشارات اور اُمت کے مسائل پر اُن کی تحریریں ہمیشہ شاہکار ہوتیں۔ تربیت گاہوں میں خطاب، حسن اور سحر پیدا کردیتا۔
عبدالغفار عزیز ؒ، قاضی حسین احمد ؒ، سید منور حسن ؒ اور سراج الحق صاحب کے دور امارت میں امور خارجہ کے ذمے دار رہے اور عالمی، عالم اسلام کے مشکل حالات میں بہت ہی احسن طریقہ سے اپنا فرض ادا کیا۔ مجھے ان کے ساتھ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، ترکی، سوڈان، ملائیشیا، چین کے دوروں، کانفرنسوں میں ساتھ رہنے اور جانے کا موقع ملا، ہر جگہ انہوںنے اپنی محنت سے جماعت اسلامی کے لیے بڑی قدر پیدا کی۔ مولانا امام سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی فکر کی شناخت تھے۔ اپنی عشق ومحبت اور جذب و غنا کی اعلیٰ مثال تھے۔ انتہائی حساس طبیعت کے انسان تھے۔ ساتھیوں کو پہنچنے والی پریشانی، کارکنان کی شہادت کی اطلاع، عالم اسلام میں ہونے والے کسی بھی المیہ پر اُن کا اضطراب اور وابستگی کی کیا شان تھی۔ خود اپنی بیماری میں بہت ہی حوصلہ، صبر اور ذکر و اذکار میں وقت گزارا۔ عبدالغفارعزیزؒ دینی محبت کے پروانہ تھے، حق کو لبیک کہا اور جان دے دی۔