فلسطینی خاتون کا80سال کی عمر میں حفظ قرآن

346

اہالیان غزہ بارہ ، تیرہ برسوں سے صہیونی ریاست اسرائیل کی سخت ناکہ بندی کا شکار ہیں اورغزہ دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل ہے ۔ مگر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود غزہ کے باسیوں کے دینی جذبے اور قرآن کریم سے محبت کی مثال مسلمانوں کا کوئی علاقہ پیش نہیں کر سکتا ۔ دنیا کی یہ کھلی جیل حفاظ قرآن کے حوالے سے دنیا میں سر فہرست ہے ۔ یہاں کے اکثر باسی قرآن کریم کے حافظ ہیں ۔ گرمی کی چھٹیوں میں اسکول پڑھنے والے بچے بھی با قاعدگی کے ساتھ حفظ قرآن کی کلاس اٹینڈ کرتے ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ کلام الٰہی کو اپنے سینوں میں محفوظ کرتے ہیں ۔ اس وقت غزہ ہی وہ واحد علاقہ ہے جہاں شادی کے لیے لڑکے کے حافظ قرآن ہونے کی شرط لگائی جاتی ہے ۔
غزہ میں حفظ قرآن کا شوق نوجوانوں اور بچوں تک محدود نہیں ۔یہاں کی ستر اور اسی سالہ بوڑھیاں بھی اپنے پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ حفظ قرآن کی کلاسوں میں سبق یاد کرتی نظر آتی ہیں اور اس عمر میں اب تک کئی خواتین کلام الٰہی یاد کرنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں ۔ ان خوش قسمت خواتین میں ایک حاجیہ مریم یوسف بھی ہیں، جن کی عمر تقریباً اسی برس ہو چکی ہے ۔ اس عمر میں وہ کتاب الٰہی کے ساتھ دو ہزار احادیث رسول ؐ بھی یاد کر چکی ہیں ۔ مریم یوسف غزہ کے دیر البلح نامی علاقے کی رہائشی ہیں ۔ گزشتہ دنوں غزہ کے نصیرات کیمپ میں حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والی دس بچیو ں کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں مجلس شرعی کے رکن ڈاکٹر عبدالرحیم الجمل کی جانب سے حاجیہ مریم کو اعزازی سند اور شیلڈ سے نوازا گیا ۔ حاجیہ مریم کا کہنا تھا کہ وہ عربی میں ماسٹر کر چکی ہیں اور طویل عرصے تک وہ سعودی عرب میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں ۔مگر قرآن کریم حفظ کرنا ا ن کا ایک خواب تھا ۔ جسے پور ا کرنے کا موقع عمر کے آخری حصے میں ملا ۔
غزہ کی مائوں میں اپنے شہید بیٹوں کے ایصال ثواب کے لیے قرآن حفظ کرنے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ ام احمد عساف کا شمار بھی ایسی ہی با ہمت مائوں میں ہوتا ہے ۔ وہ ساٹھ کے پیٹے میں ہیں ۔ جب2003ء میں ان کے بیٹے احمد کو اسرائیلی درندوں نے شہید کیا تو انہوں نے شہید کے لیے قرآن کریم حفظ کرنے کا عزم کر لیا ۔ ابھی انہوں نے ناظرہ و تجوید کے بعد حفظ شروع کیا تھا کہ ان کا دوسرا بیٹا اسامہ بھی2005ء میں شہید ہو گیا ۔ اس عمر میں کلام پاک یاد کرنا ام احمد کے لیے کافی مشکل ثابت ہو رہا تھا ۔ مگر دوسرے بیٹے کی شہا دت نے ان کے جذبے کو مزید مہمیز دی انہوں نے تمام تر صعوبتوں کی پروا کیے بنا اپنی محنت جاری رکھی ۔ بلکہ دونوں بیٹوں کی شہادت کا غم ہلکا کرنے کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ وقت کتاب الٰہی کو دینے لگیں ۔ شمالی غزہ کے پہاڑی علاقے میں بسنے والی ام احمد نے چھوٹی بچیوں کے ساتھ روزانہ کلاس اٹینڈ کرتی رہیں اور بالآخر حفظ قرآن کی عظیم دولت انہوں نے حاصل کر لی ۔ اب ان کا زیادہ تروقت قرآن کریم کے ساتھ ہی صرف ہوتا ہےاور وہ تلاوت کر کے اپنے شہید بیٹوں کے بلنددرجات کے لیے دُعا کرتی ہوں۔