10 اکتوبر، دماغی صحت کا عالمی دن: اسباب، علامات، احتیاط

651

10 اکتوبر کا دن دماغی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن شعبہ طب سے وابستہ تمام ادارے و عملے عام لوگوں کو ذہنی صحت و امراض سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ اس تحریر میں بھی ذہنی صحت سے متعلق چند مسائل اور احتیاطی تدابیر اور اُن کے اسباب اور علامات کا مختصراً ذکر کیا جارہا ہے۔

پاکستان:

ویسے تو ذہنی و نفسیاتی امراض میں عالمی سطح پر ہوشربا اضافہ ہورہا ہے تاہم اگر ہم صرف پاکستان کی بات کریں تو اس کی وجہ معاشرتی و معاشی مسائل، عدم تحفظ کا شکار ہونا، سیاسی عدم استحکام، بے روزگاری، روزگار کے دوران کام کا دباؤ، امتیازی سلوک اور معاشرتی تبدیلیاں وغیرہ ہیں۔

پاکستان کی سائیکاٹری سوسائٹی اور جناح اسپتال میں سربراہ ڈپارٹمنٹ نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ ڈپریشن عالمی مسئلہ ہے جو خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں درپیش ہے اور اس سے ہر معاشرے کے افراد متاثر ہیں۔ دنیا بھر میں قریباً 350 ملین افراد دماغی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں۔ ہر سال قریباً 10 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ روزانہ قریباً 3 ہزار لوگ خود کشی کرتے ہیں۔

ذیابیطس اور ڈپریشن:

اس ہی طرح ذیابیطس اور ڈپریشن کی کیفیات بھی مریض پر جذباتی اور نفسیاتی دباؤ ڈالتی ہیں۔ ذیابیطس کی جسمانی علامات میں کم نیند، کم توانائی وغیرہ شامل ہیں اور بعض مریض ادویات کو بھی ان عوامل کا سبب قرار دیتے ہیں جس کے باعث وہ ادویات سے کنارہ کشی کو ترجیح دیتے ہی جس سے اُن کے ڈپریشن میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو کہ ذہنی صحت کی خرابی پر منتج ہوتا ہے۔

 ذہنی مرض ایک موروثی مرض:

سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ نفسیاتی بیماریاں بھی موروثی طور پر نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں جب کہ ذہنی امراض کا تعلق نیورو لوجیکل ڈس آرڈر سے ہوتا ہے۔

تحقیقی جریدے سائنس میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق نفسیاتی امراض بالخصوص شیزو فرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر کے نسل در نسل منتقل ہونے کے شواہد ملے ہیں تاہم ذہنی۔ اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ نفسیاتی امراض بھی محض کسی دماغی یا نیورون کی خرابی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر:

1) ایک طبی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے، مطالعہ کرنے اور معمے حل کرنے کے شوقین افراد بڑھاپے میں الزائمر کے مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان افراد میں عام افراد کے مقابلے میں الزائمر کا خطرہ 47 فیصد کم ہو جاتا ہے۔

2) کسی بھی ایسی چیز کے عادی نہ بنیں جو بعد میں آپ کو نشے کی طرف لے جائے۔ جیسے تمباکو نوشی، شراب نوشی وغیرہ۔ ایسی تمام اشیا نہ صرف انسان کی ظاہری وضع قطع کو خراب کرتی ہیں بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔

3) لالچ اور حرص انسان کی اندرونی کیفیات ہیں اور یہ انسان کو ہمیشہ مادی فائدے کے لیے اکساتے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے انسان طاقت سے زیادہ کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں، جو بھی فرد اپنی طاقت و استطاعت سے زیادہ بھاگ دوڑ کرے گا، اس کے ذہنی وجسمانی طور پر بیمار ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

4) ایک ہی وقت میں بہت سے کاموں کو انجام دینے سے گریز کریں۔ اگر بیک وقت بہت سے کام درپیش ہوں تو ان کی لسٹ بنا لیں اور سب سے اہم کام پہلے انجام دیں۔

5) نفرت جیسے منفی جذبات کو کبھی بھی ذہن میں نہ پالیں کیوں کہ اس سے آپ ذہنی دباؤ میں رہیں گے اور دماغی صحت متاثر ہوگی۔ کوئی نا گوار شخصیت یا بات سامنے آجائے تو درگزر سے کام لیں۔

مریض کی پہچان کی چند اہم ظاہری علامات:

1) نفسیاتی مریض عموماً احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ انہیں زندگی ایک خواب کی طرح لگتی ہے دوسروں کو تکلیف دینا ان کیلئے فرحت بخش اور سکون کا باعث ہوتا ہے۔

2) نفسیاتی مریضوں کی نیند ایک صحت مند انسان کے مقابلہ میں کافی کم ہوتی ہے اور اس کی وجہ ان ٓکی خود ساختہ خوشی ہوتی ہے جو انہیں سونے نہیں دیتی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی خوف کی وجہ سے ان کی نیند کم ہوجاتی ہے۔

3) ایسے لوگوں میں خود نمائی کی عادت ہوتی ہے اور اکثر خود کو بہتر ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظروں میں آسکیں۔

4) ان میں اذیت پسندی کا مادہ بہت ہوتا ہے دوسروں کو شرمندہ کرنا اور تکلیف دینا ان کو ذہنی سکون پہچانتا ہے اس کے لئے یہ کسی کی جان تک لے سکتے ہیں۔

5) ان میں الزام تراشی کی خو بھی پائی جاتی ہے اپنے کام سے انکار اور اس کا الزام دوسروں پر ڈالنا ان کی اہم نشانی ہے۔

6) یہ بھی ایک علامت ہے جس سے جانا جاسکتا ہے کہ کسی فرد کی ذہنی سطح کیسی ہے۔ ذہنی مرض/امراض کی حامل افراد قانون اور اصول و ضوابط نام کی شے سے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔