ـ9 اکتوبر ،147 عالمی یوم ڈاک

732

سید حمید احمد
ڈپٹی جنرل سیکرٹری کراچی پوسٹل اسٹاف ویلفیئر(رجسٹرڈ)
لفظ پوسٹ فرانسیسی زبان کے لفظ پوسٹی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ، مقام یا ایک مخصوص جگہ کے ہیں ۔ ڈاک کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب و تمدن قدیم ترین پوسٹل تاریخ چین میں2000 قبل مسیح میں ملتی ہے ۔
چینی بادشاہ کا با قاعدہ گھوڑوں کا نظام تھا اور بڑی ڈاک کے لیے چھکڑوں کا استعمال ہوتا تھا ۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت البرید قائم کیا جو ایک بھر پور ڈاک کا نظام تھا ۔بعد میں حضرت معاویہ ؓ نے اس کو آگے بڑھایا ۔
شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں1540 سے1545 کے دوران بنگال سے سندھ تک ڈاک کا ایک با قاعدہ نظام بنایا اور تھوڑے فاصلے پر تازہ دم گھوڑوں کا پڑائو بنایا ۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ نے1566 سے1590 شاہی میل کا ایک با قاعدہ نظام بنایا ۔
تاریخی ادوار سے ڈاک ٹکٹ کا اجراء160 سال قبل ہوا ۔پیغام رسانی کا وجود حضرت آدم ؑ سے ملتا ہے ۔ جب حضرت جبرائیل ؑ نے اللہ کا پہلا پیغام لے کر حضرت آدم ؑ تک پہنچایا ۔
9اکتوبر1874ء سے عالمی سطح پر147 واں یوم ڈاک کا عالمی دن194 ممالک بشمول پاکستان میں منایا جاتا ہے ۔ ڈاک کے حوالے سے یونیورسل پوسٹل یونین(UPU) کا قیام1969ء میں عمل میں آیا ۔ عالمی یوم ڈاک منانے کا تاریخی فیصلہ یونیورسل پوسٹل یونین(UPU) کے عالمی کنونشن جو جاپان کے شہر ٹوکیو میں ہوا تھا۔15ستمبر1874ء کو بائیس ممالک کے ممبران سوئیزر لینڈ میں ملے جہاں یونیورسل پوسٹل یونین(UPU)کا قیام عمل میں آیا ۔ تاریخ ساز فیصلے کے بعد یونیورسل پوسٹل یونین(UPU) اپنے ممبر ممالک کی کارکردگی اور خامیوں کا جائزہ لیتی ہے اور ان پر کڑی نظر رکھتی ہے ۔
اس حوالے سے پاکستان میں1873ء میں عوام کے لیے پوسٹ آفس ایکٹ کے تحت ڈاک کا سلسلہ شروع ہوا اور چسپاں کرنے والا ٹکٹ1840ء میں شروع ہوا ۔
1873ء میں سیونگ بینک کی بنیاد رکھی اور سیونگ کائونٹر کھولے گئے ۔
1884ء میں پوسٹل لائف انشورنس کا قیام عمل میں آیا جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے ۔
1885ء میں پوسٹ آفس میں سیونگ بینک کو ضم کر دیا گیا ۔
برصغیر میں1898ء محکمہ ڈاک قائم تھا ۔پاکستان بننے کے بعد اسی ایکٹ کے تحت ڈاک نظام چل رہا تھا ۔ پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں3036 ڈاکخانے تھے ۔ ابتدا میں ہندوستانی ڈاک ٹکٹ پر پاکستان چھاپ کر استعمال میں لایا گیا ۔
پہلا ٹکٹ با قاعدہ1948ء کو پاکستان زندہ باد تحریر کر کے چھاپا گیا ۔ چاروں ٹکٹوں کے اس سیٹ کو عبدالرحمن چغتائی اور عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیا جس پر عادل صلاح الدین کے ڈیزائن کردہ خوبصورت ٹکٹوں پر ستارہ امتیاز کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ در اصل ڈاک ٹکٹ قوموں کی ثقافت دنیا بھر میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جہاں جہاں جس ملک میں ڈاک ٹکٹ جاتے ہیں یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ ملک کی ترجمانی اور سفیر کی حیثیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔
محکمہ ڈاک طلبا و طالبات کو ڈاک ٹکٹوں کی تاریخی حوالے سے آگاہی کے لیے اسٹیمپس کلب کا قیام عمل میں لائے۔ جہاں پر ہر سال ٹکٹوں کی نمائش کرکے اسٹیمپ کلیکٹر کو بھی دعوت دی جائے۔ اس طرح محکمہ ڈاک کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ کراچی اسٹیٹ بینک کی لائبریری میں تاریخی ڈاک ٹکٹوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح فیڈریشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری اقبال نانجی اور اسٹیمپ کلیکٹروں کے پاس دنیا بھر کے ڈاکٹ ٹکٹ، قدیم سکے ہیں، ہر قسم کی کرنسی کی ایکسپو میں نمائش کے دوران آگاہی دی جاتی ہے۔
اس موقع پر طلبا و طالبات کے درمیان بینر ڈیزائننگ، نثر نگاری اور خطوط نگاری پر اول، دوم اور سوم آنے پر انعامات اور شیلڈ و اسناد سے نواز جاتا ہے۔
اب ایک نظر محکمہ ڈاک کی افادیت اور کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ محکمہ ڈاک ایک مالی منافع بخش ادارہ ہے جو ملازمین کے لیے ایک ماہ کی حیثیت کا درجہ تکھا ہے۔ ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارا منشور خدمت، دیانت اور امانت سے انحراف ہمیں ایک ایسے موڑ پر لے جا رہا ہے جہاں شاید تنخواہیں وقت پر ملنا بھی مشکل ہو جائیں گی جس کی مثال اسٹیل مل اور پی آئی اے کی ہے۔ پابندی وقت سے انحراف، آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں، یونٹ آفیسرز کی کرپشن کے خلاف چشم پوشی ایک سوالیہ نشان ہے؟ محکمہ ڈاک کا تازہ اسکینڈل بھی سامنے ہے۔
محکمہ ڈاک کی اعلیٰ انتظامیہ چاہتی ہے ٹیکنالوجی کے دور میں محکمہ ڈاک ترقی کی طرف گامزن ہو۔ محکمہ ڈاک جدید طور پر استوار کرنے کے لیے تمام ڈاک خانوں میں کمپیوٹر سسٹم لگائے گئے ہیں۔ ڈاک کی تقسیم پر زور دیا گیا ہے تاکہ صارف کو بروقت ڈاک مل سکے۔ ڈاک کی بروقت ڈیلیوری کے لیے تمام پوسٹ مینوں کو موٹر سائیکل دیں۔ لیکن پوسٹ مینوں کو شکایت ہے کہ انہیں پیٹرول کے پیسے وقت پر نہیں ملتے۔ یونیفارمز دی گئیں اگر کوئی استعمال نہیں کرے تو کس کی ذمہ داری ہے؟
پنشن کی پنشنروں کو سہل بنا دیا گیا ہے۔ تمام پنشنروں کی پنشن ان کے پنشن اکائونٹ میں کمپیوٹرازڈ طریقے کے ذریعے آجاتی ہے، یہ ایک اچھا اقدام ہے۔
محکمہ ڈاک کو سب سے زیادہ نقصان آج موجود کوریئر کمپنیوں نے دیا۔ غیر قانونی اشیا بک کرکے پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان پوسٹ وہ واحد ادارہ ہے جو دنیا بھر میں اور پاکستان کے کونے کونے میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی کے اس پر آشوب دور میں محکمہ ڈاک 20 روپے میں ڈاک لفافہ پاکستان کے ہر شہر و گائوں میں پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے جبکہ اس کی چھپائی اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اسی طرح آن لائن شاپنگ سرور C.O.D. کا رواج بڑھ رہا ہے جس سے پاکستان پوسٹ کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں کچھ کمپنیاں غیر معیاری اشیا بھی بھیج دیتی ہیں جبکہ انٹرنیٹ پر کچھ اور دکھایا جاتا ہے۔ جو پوسٹ مین اور صارف کے درمیان بحث کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ اس میں پاکستان پوسٹ کا کوئی کردار نہیں ہوتا صرف صارف تک COD پہنچانے کے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا جب VP/COD صارف کھلوا لیتا ہے اور مطلوبہ چیز نہ نکلنے پر چارجز نہیں دیتے جو پوسٹ مین خود اد کر چکے ہیں۔ اس کا سدباب ہونا چاہیے۔
کثیر تعداد ملازمین ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں اور کافی ملازمین نے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے رکھی ہیں۔ پورے پاکستان میں محکمہ ڈاک میں ملازمین کی بڑی تعداد میں ریٹائرمنٹ کے بعد تعداد میں کمی واقع ہوگئی۔ جس کی وجہ سے کارکردگی پراثر پڑ رہا ہے۔