اطہر ہاشمی ریاست کے چوتھے ستون کے محا فظ تھے،ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی

1076

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) جمعیت الفلاح کراچی کے زیر اہتمام ملک کے ممتاز دانشور،اْردو زبان و ادب کے معروف استاد،مدیر اعلیٰ روز نامہ جسارت سید اطہر علی ہاشمی مرحوم کی یاد میں تعزیتی اجلاس منگل کے روز جمعیت الفلاح ہال میں منعقد ہوا،جس میں محبان اطہر ہاشمی مرحوم،احباب اور صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی،شرکاء نے سینئر صحافی سید اطہر علی ہاشمی کی صحافتی خدمات کوسر اہا اور انہیں خراج عقید ت پیش کیا،اجلاس کی صدارت نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کررہے تھے۔جبکہ دیگر مہمانوں میں روزنامہ جسارت کے ایڈ یٹر مظفراعجاز،سابق منتظم اعلیٰ روز نامہ جسارت سید کمال احمد فاروقی،مدیر روزنامہ اْمت کراچی نصیر ہاشمی،مدیر روز نامہ نئی بات کراچی مقصود یوسفی،اطہر ہاشمی مرحوم کے صاحبزادے سید فواد ہاشمی،جمعیت الفلاح کے صدرقیصرخان،نائب صدر جہانگیرخان،سینئر صحافی اورجسارت کے سابق نیوز ایڈ یٹر راشد عزیز سمیت دیگر نے خطاب کیا،تعزیتی اجلاس میں اطہر ہاشمی کے بڑے صاحبزادے حماد ہاشمی،فواد ہاشمی،صارم ہاشمی،بہو مہوش،پوتا اور پوتی اور بیٹی ماریہ بھی موجود تھیں۔تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا ہے کہ آج کے دور میں پوری دنیا میں نوجوان صحافیوں کا اگر کوئی رول ماڈل ہو سکتا ہے تو وہ سید اطہر علی ہاشمی ہیں جنہوں نے صحافت کو عبادت کے طور پر اپنایا ہے۔اطہر ہاشمی کو جس زاویہ سے بھی دیکھے وہ ایک اچھے انسان،ادیب،استاد،دانشور اور صحافی تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اطہر ہاشمی کو روزے آخرت اللہ تعالیٰ کے بہترین ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ قحط ریجال کے اس دور میں وہ ایک عظیم انسان تھے اطہر ہاشمی ایک استاد، دانشور، صحافی اورادیب تھے۔اطہر ہاشمی کی صحافت بے باک صحافت تھی وہ دلوں پر راج کرنے والے عظیم صحافی تھے۔وہ اپنی بات اچھے پہرائے میں دوسروں تک پہچانے والے عظیم صحافی تھے۔انہوں نے کہا کہ اطہر علی ہاشمی کوچہ صحافت سے خود تو چلے گئے لیکن ناجانے کتنے صحافیوں کو سیکھا کر کے ان کو زندہ چھوڑ گئے ہیں۔ایسے استاد وصحافی جو اپنا کام چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔کوچہ صحافت اردو زبان کے اپنے بہت بڑے استاد اور خادم سے محروم ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میری ان سے جو بھی ملاقات رہی ہے وہ یاد گار اور معلومات پر مبنی رہی ہے ان کی شخصیت ایسی تھی کہ جب بھی کوئی ان کے پاس بیٹھا ہے ان سے کچھ سیکھ کر ہی اٹھا ہے وہ دلوں کو فتح کرنے کا گر جانتے تھے۔انہوں نے کہا کہ اطہر ہاشمی نے کبھی بھی ا پنی ذات کو نمایاں نہیں کیا ہے۔ہمیشہ انکساری، ہمدردی اور محبت سے پیش آتے تھے،اللہ تعالیٰ ہمیں آج ریاست کے چو تھے ستون کی حفاظت کرنے والے ایسے ہی صحافی عطا فرمائے جو صحافت کو عبادت سمجھ کر اسے زندہ رکھ سکے اور پاکستان میں اچھی صحافت کا بول بالاہو سکے۔

روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر مظفر اعجاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا اور اطہر ہاشمی کا 37 برس کا ساتھ رہا ہے سن2001ء کے بعد جو وقت ہاشمی کے ساتھ گزارا ہے وہ یاد گار تھا۔وہ بہت اچھا لکھنے اور بولنے والے صحافی کے ساتھ ساتھ بہت عظیم انسان تھے۔ان کو میں نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا آج ان کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔اطہر ہاشمی کے لیے 1 گھنٹہ یا پورے دن گفتگو کرے تو وہ بھی کم ہوگا۔انہوں نے اردو لکھنے بولنے کی درستگی کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔ان کی کوشش تھی کہ کم از کم اخبارات اور دیگر میڈیامیں کام کرنے والے صحافیوں کی اردو درست ہو جائے اسی کے لیے وہ خبرلیجے زباں بگڑی کے حوالے سے لکھا کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو سیکھا کر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے تھے کسی کے بارے میں منفی پہلو کو اجاگر نہیں کرتے تھے ان کا سیکھایا ہوا آج بہت کام آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دنیا سے بڑے بڑے ہیرے چلے گئے ان میں اطہر ہاشمی تھے وہ بھی چلے گئے میں انہیں صحافت کے استاد، دانشور اور ادیب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جسارت کے سابق منتظم اعلیٰ سید کمال احمد فاروقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اطہر علی ہاشمی نے جسارت اور صحافت کو ایک مشن کے طور پر اپنایا ہے۔جسارت صحافیوں کی نرسری نہیں ہے بلکہ یہ ایک یونیورسٹی ہے جہاں سے لوگ سیکھ کر فارغ ہوتے ہیں اور دنیا صحافت میں اپنا مقام بناتے ہیں۔اطہر علی ہاشمی مرحوم ہو گئے ہیں مگر ہمیں محروم کر گئے ہیں۔وہ ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔اطہر ہاشمی سے طویل تعلق نہیں رہا ہے لیکن ان کے ساتھ نشستیں بہت ساری رہی ہیں 5 برس جسارت کے منتظم اعلی کی ذمہ داری کے دوران میرا ان سے احترام کا رشتہ قائم رہا ہے۔وہ سیکھانے سنوارنے اور آگے بڑھانے والے انسان تھے۔

جسارت کے آن،بان،شان اطہر علی ہاشمی تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں استادوں اور مربین کو یاد رکھنا چاہیے ہم اپنے محسنین اور خدمت گزار وں کو بھول چکے ہیں ہمیں اطہر علی ہاشمی کی تحریریں کو دوبارہ سے شائع کرنا چاہیے تاکہ آج کے صحافی ان کی تحریروں سے کچھ سیکھ سکے۔روزنامہ امت کے ایڈیٹر نصیر ہاشمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اطہر ہاشمی کی بے نیازی بھی کمال تھی وہ خود دے کر بھول جاتے تھے لیکن خود لیے ہوئے کو نہیں بھولتے تھے اسے یاد کر واپس کر دیتے تھے ان کے اندر ذاتی خوبیاں بھی بہت تھی۔اب تو صحافت تجارت بن گئی ہے لیکن اطہر علی ہاشمی دیانت دار اور بے باک اور جرأت مند صحافت میں آخری نسل کے صحافی تھے اب مجھے دور دور تھے ایسے صحافی نظر نہیں آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اطہر علی ہاشمی نے اردو زبان کی درستگی کے لیے بڑا کام کیا ہے انہیں اردو زبان وکلام کی بڑی فکر رہتی تھی۔اردو کے الفاظ غلط لکھنے پر بہت ناراض ہو جاتے تھے لیکن تصیح اور اصلاح مذاق کے انداز میں کرتے تھے۔

روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر مقصود یوسفی نے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جسارت میں باحیثیت رپورٹر اپنے فرائض انجام دیے اور میں نے اطہر علی ہاشمی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔باحیثیت صحافی ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے انہیں صحافت کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ صحافیوں کے استاد تھے اور ہمیشہ اردو کی بہتری کے لیے کوشاں رہے ہیں آج صحافت اردو زبان کے ایک عظیم استاد سے محروم ہو گئی ہے۔تعزیتی اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے سید اطہر علی ہاشمی کے صاحبزادے فواد ہاشمی نے کہا کہ میرے والد محترم ہم سب بھائیوں کے لیے رول ماڈل تھے۔باحیثیت اطہر ہاشمی کو مجھے اپنے والد ہونے پر فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح دیگر لوگوں نے میرے والد محترم کو ایک اچھا استاد،ادیب،صحافی،دانشور پایا ہے اسی طرح میں نے اپنے والد کو ایک اچھا باپ پایا ہے۔ان سے ہم بھائیوں کا ہمیشہ دوستی والا معمالہ رہا ہے۔

ہمیشہ انہوں نے اچھے کاموں کی ترغیب دی ہے۔گھر کے کسی بھی معمالے پر والد محترم سے مدد حاصل کرتے تھے ابو نے زندگی بھر ہمیں سیکھانے کا سلسلہ جاری رکھا،ابو کے اعصاب بہت مظبوط تھے کبھی انہیں کسی بات پر شکایت کرتے نہیں دیکھا ہے انہیں ہمیشہ خوش مزاج اور دوسروں کے کام آتے دیکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ ابو نے ہمیں کسی شرارت سے کبھی منع نہیں کیا ہے۔وہ اپنی کمزوری دیکھانے والے انسان نہیں تھے۔ہمیں آج بھی یقین نہیں آتا ہے کہ میرے ابو اس دنیا سے چلے گئے ہیں اب بھی جب اندھیرا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے ابو گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر گھر کے اندر داخل ہونگے،انہوں نے کہا کہ کسی بھی معلومات کے لیے ابو کے پاس چلے جاتا تھا لیکن آج وہ ہم میں نہیں ہیں تقریر مجھے اب خود لکھنی پڑی ہے۔اطہر علی ہاشمی کے بڑے صاحبزادے حماد ہاشمی کا کہنا ہے کہ میری خواہش کہ میرے والد محترم سید اطہر علی ہاشمی کے نام سے سرکاری طور پر کچھ کیا جائے۔کراچی میں کوئی سڑک یا کوئی اعزاز ان کے نام سے منسوب کی جائے۔تعزیتی اجلاس سے جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان نے اجلاس میں شریک تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سید اطہر علی ہاشمی کی تحریریں کو جمعیت الفلاح کے زریعے جلد کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام کیاجائے گا۔

تعزیتی اجلاس سے جمعیت الفلاح کے نائب صدر جہانگیر خان نے کہا کہ اطہر علی ہاشمی صحافت میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے ان جیسے افراد دنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے شعبہ ادب اور اردو زبان کے لیے بڑا کام کیا ہے۔سینئر صحافی اورجسارت کے سابق نیوز ایڈ یٹر راشد عزیز نے کہا کہ اطہر ہاشمی جیسے دوسرا انسان میں نے کہیں نہیں دیکھا ہے کبھی ان کو پریشان نہیں دیکھا ہمیشہ خوش و خرم دیکھا بڑی سی بڑی بات اس انداز میں کہتے کہ سننے والے ہنستے ہوئے سمجھ جاتا تھا۔اطہر ہاشمی صحافت میں استاد کی حیثیت رکھتے تھے ان کے جانے کے بعد اس خلہ کو پر کرنا بہت مشکل ہے۔