نا اہلیت کا دائرہ

688

عام آدمی تو حکمرانوں کی کارکردگی، طرز حکمرانی اور سوچ کے بارے میں تذبذب میں مبتلا ہے۔ کیوں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ فیصلہ کرنے والے کون لوگ ہیں۔ ان کی فیصلہ سازی کا معیار کیا ہے۔ مگر یہ حیرت اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب عدالت عظمیٰ حیران ہو کر یہ استفسار کرتی ہے کہ ایوانِ اقتدار میں کون لو گ ہیں۔ یہ کہاں سے آئے ہیں۔ اور کیسے عوام پر مسلط ہو گئے ہیں۔ ہم کیا پوری قوم ہی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سبزی اور آٹے کی قیمت کا تعین کرنے کا معیار کیا ہے۔ اور کس طرح اشیاء ضروریا ت کے نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ روز کا مشاہدہ ہے کہ نرخ نامے میں جو قیمت درج ہوتی ہے اکثر اوقات سبزی فروش اس سے کم قیمت میں سبزی فروخت کرتے ہیں۔
روٹی 5روپے میں اور نان 6 روپے میں فروخت ہو رہا تھا کہ اچانک نان فروشوں نے ہڑتال کر دی اور اپنے ساتھ نان بائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ بات فائدے کی تھی سو، روٹی فروشوں نے بھی ان کے ساتھ ہڑتال کر دی۔ اور حکومت نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ خدا جانے ہمارا حکمران طبقہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے کہ جو ان کے لیے خطرہ بننے لگے فوراً اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ حکومت نے ایک کمیٹی بنائی اور اس میں نان اور روٹی فروشوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے نان اور روٹی کی قیمتوں میں دو دو روپے کا اضافہ کر دیا۔ نان 6سے 8روپے کا ہو گیا۔ جسے نان فروش 10 روپے میں بیچنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اسی طرح روٹی 7روپے کی ہے جو عموماً 10 روپے کی فروخت ہو رہی ہے۔ اضافی قیمت لینے کا بہانہ ہے کہ ہمارے پاس کھلا نہیں ہے۔
ہم نے ایک تندور والے سے پوچھا تم آٹا کا تھیلا آٹھ سو والا خرید رہے ہو یا آٹھ سو ساٹھ والا۔ اس نے بتایا کہ یوٹیلیٹی اسٹور پر بیس کلو آٹے کا تھیلا 800روپے میں ملتا ہے مگر وہ ناقص ہے۔ اس کی روٹیاں کالی ہوتی ہیں اور کھانے میں بھی بدمزا ہوتی ہیں۔ جو آٹا سرکاری اسٹور سے 860روپے میں ملتا ہے اس کی روٹیاں قدرے سفید ہوتی ہیں اور سفید روٹی کی خوبی یہ ہے کہ کھانے والا خوش ہو کر کھا لیتا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ جس کمیٹی نے نان اور روٹی کی قیمت کا تعین کیا اس میں کون کون لوگ شامل تھے۔ اور ان کی اہلیت کیا تھی۔ چلیے اہلیت کی بات چھوڑ دیتے ہیں کہ اہلیت کی بات چھڑ گئی تو قیامت تک جا پہنچے گی۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ 860روپے میں جو آٹے کا تھیلا ملتا ہے اس میں کم از کم 300روٹیا ں بنتی ہیں۔ 7روپے ایک روٹی کی قیمت ہو تو 300 x 7=2100 بنتے ہیں۔ اگر ایک روٹی کی قیمت 6روپے ہو تو 300 X 6=1800 بنتے ہیں۔ اب ایک تھیلا آٹے کی قیمت پر جو خرچ آتا ہے اس کا حساب بھی کر لیتے ہیں۔ لکڑی بیس کلو 300 روپے۔ روٹی پکائی 500روپے کل لاگت آئی 860+500+300= 1660 گویا تندور والے نے 1660 روپے خرچ کیے اور آمدنی ہوئی 2100 روپے۔ اس میں روٹی پکائی 500روپے بھی شامل کر دیتے ہیں تو منافع ہوا 840+340+500 = 1660 بنتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک تھیلے میں کتنا منافع ہوا۔ 1660 پر 840روپے کمائے۔ گویا لگ بھگ 50فی صد منافع ہوا۔ اگر کمیٹی میں شامل ارکان کو عوام کی غربت اور کورونا کی تباہ کاری کا احساس ہوتا تو منافع 50فی صد کے بجائے 10فی صد ہوتا۔ اور ہونا بھی چاہیے کہ 10فی صد منافع معقول ہوتا ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہوتا جب کمیٹی کے ارکان معقول سوجھ بوجھ کے حامل ہوتے۔ اور نان بائیوں کو یہ باور کرواتے کہ ان کا مطالبہ بے معنی ہے۔ حکومت انہیں لوٹ مار کا لائسنس نہیں دے سکتی۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے کیونکہ اس معاملے میں قطعاً جاہل تھے۔ اور کسی جاہل کا کسی اہم عہدے پر فائز ہونا سب سے بڑی نااہلیت ہوتی ہے۔ حکمران نااہل ہوں تو سرکاری عہدے دار بھی نااہل ہوتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی نااہل شخص کو اہم عہدے پر فائزکرنا ایک ایسا گناہ ہے جس کی معافی ہے نہ تلافی ہے۔ نااہلیت ایک ایسا دائرہ ہے کہ جو کسی قوم کے لیے پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہوتا۔