شاہنواز فاروقی روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر مقرر

1284

ممتاز صحافی، دانشور، شاعر، ادیب اور کالم نگار شاہنواز فاروقی روزنامہ جسارت کے نئے چیف ایڈیٹرمقرر ہوگئے۔ گزشتہ دنوں اطہر ہاشمی کی رحلت کے بعد یہ عہدہ خالی ہوا تھا۔ اس سے قبل عبدالکریم عابد، محمد صلاح الدین، محمود احمد مدنی اور اطہر علی ہاشمی جسارت کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

شاہنواز فاروقی گزشتہ 35سال سے شعبہء صحافت سے وابستہ ہیں، خبر اور اخبار کی بنیادی تکنیک پر ان کی گہری گرفت ہے،وہ ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں اور پیش آمدہ حالات و واقعات پر قلم اٹھا کر لکھنے کی فن بھی رکھتے ہیں۔

شاہنواز فاورقی نے 1990ء کی دہائی میں کالم نگاری کا آغاز کیا۔ آپ پی ٹی وی کے شعبۂ نیوز سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ کالم نگاری کا آغاز روزنامہ جسارت سے کیا، اور بڑے بڑے اداروں سے کئی بار پیش کش کے باوجود جسارت کے قارئین سے ہی اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ آپ نے مذہب، تہذیب، تاریخ، سیاست، معیشت، سماج، ادب، شاعری، قومی و عالمی سیاست سمیت ہر موضوع پر قلم اٹھایا۔ مغرب اور مغربی تہذیب، سیکولرازم و لبرل ازم آپ کے خاص موضوعات میں شامل ہیں۔ ہندوستان اور ہندو مسلم کش مکش کا بھی وسیع مطالعہ ہے، قدیم ہندوستان کے تاریخی ویدی مذہب کو بھی جانتے ہیں، رامائن میں رام چندر اور سیتا کی سیرت کے ساتھ مہا بھارت کی جھلک بھی آپ کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ اسی طرح آپ نے عالمِ اسلام اور عالمی حالات پر بھی اس کے پورے پس منظر کے ساتھ لکھا۔

شاہنواز فاروقی 1964ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے میٹرک اشاعت القرآن گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، ناظم آباد اور انٹر گورنمنٹ پریمیئر کالج سے کامرس میں کیا۔ بعد ازاںجامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ سے بی اے آنرز فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن میں، اور ایم اے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا۔ آپ جامعہ کراچی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اُس زمانے کا سردار علی صابری ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ زمانہ ء طالب علمی میں بچوں کے مشہور رسالے ’’آنکھ مچولی‘‘ میںلکھتے رہے۔ شاہنواز فاروقی نے سنجیدہ اور تحقیقی کالموں کے ساتھ فکاہیہ کالم بھی لکھے۔ انہوں نےاپنے کالموں میں ہمیشہ مزاح برائے مزاح کے بجائے مزاح برائے اصلاح کو اہمیت دی ہے۔ سنجیدہ کالم ’’گفتگو‘‘ اور ’’روبرو‘‘ کے عنوان سے فرائیڈے اسپیشل اور جسارت میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل اردو نیوز جدہ میں ’’تناظر‘‘کے عنوان سے بھی لکھتے رہے ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں دو تحقیقی مقالے لکھے جن میں ’’شخصیت اور خدمات سلیم احمد‘‘ اور ’’شخصیت اور خدمات مشفق خواجہ‘‘ جو صیغہ مطبوعاتی ابلاغ، شعبہ ابلاغ عامہ،جامعہ کراچی نے اکابر صحافت،۲، کے سلسلے کے تحت شایع بھی کیا۔ شعبہ ابلاغ عامہ میں کچھ مدت کے لیے صحافت کی تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ آپ کے کالموں کے مجموعے کی پہلی کتاب ’’کاغذکے سپاہی‘‘ تھی، اس کے بعد سے اب تک پچیس سے زائد کتابیںشایع ہوچکی ہیں، جن میں ’’اسلام اور مغرب‘‘، ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ جس کا انگریزی ترجمہ”Clash of Civilization” کے نام سے بھی شایع ہوچکا ہے، کے علاوہ مصرف، گفتگو، روبرو، بارِ امانت، کاغذ کی کشتی، دستک، صحرا میں اذان، گویائی، چراغِ دل اور طواف شامل ہیں۔
شاہنواز فاروقی شاعری کا شغفت بھی رکھتے ہیں۔ان کا ایک شعری مجموعہ’’کتابِ دل‘‘ شایع بھی ہوچکا ہے۔

بچوں کے ادب پر آپ کی 10کتابیں ’’وہ رات اور کالاباغ، ’’سچا پاکستانی‘‘، ’’گھر نہیں بنا سکے‘‘، ’’غیر مطمئن گائوں‘‘، ’’رائی کا پہاڑ‘‘، ’’بیچارے بچے‘‘، ’’شیر کو زندہ کرنے والے‘‘، ’’احسان فراموش آدمی‘‘ شایع ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں چار طبع زاد اور پانچ بچوں کے عالمی ادب کا ترجمہ ہیں۔ ایک کتاب بچوں کی نظموں کا مجموعہ’’آبشار‘‘ شایع ہوچکی ہے۔ بچوں کے رسالے میں ناول ’’عکس‘‘ سائنس فکشن پر قسط وار چھپا، جو فی الحال کتابی صورت میں شایع نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ لندن کے ناول ’’کال آف دی وائلڈ‘‘کا ترجمہ بھی قسط وار چھپ چکا ہے۔ آپ کی دو کتابیں’’سرسید تاریخ کی میزان میں‘‘ اور’’اسلام کی انقلابیت، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی‘‘ اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ ’’ہندوستان کیا ہے؟‘‘ اور ’’مغرب‘‘ پر بھی کام ہورہا ہے۔