ذلّت کے گڑھے

1198

یوں تو دستور پاکستان کے نام ہی سے سیکولر اور لبرل طبقے کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو… وہ دستور جو اسلامی دستور ہے۔ دستور کے مطالبے، دستور کے بننے کے اور اس کی منظوری کے پہلے لمحے ہی سے اس کے خلاف ان کی ایک منظم جدوجہد شروع ہوچکی ہے۔ اور اس کے پیچھے اور کبھی منظر عام پر یہی سیکولر ازم اور لبرل ازم کے علم بردار گماشتے ہوتے ہیں۔ یہ پرلے درجے کے جھوٹے اور دغا باز ہیں انہوں نے ہمیشہ دنیا کو فریب دیا ہے۔ یہ کسی دلیل کو نہیں مانتے۔ کیونکہ یہ عالمی بے ضمیر انسانوں کا گروہ ہے۔ یہ انسانوں کو سبز باغ دکھا نے کے ماہر ہوتے ہیں۔ قرآن کے مطابق جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کر نے والے ہیں۔ (سورہ البقرہ)
دیا گیا حوالہ اس پس منظر میں ہے کہ یہ فسادی گروہ عوام کو ایک بار پھر فریب دینے میں کامیاب ہوگیا روٹی، کپڑا اور مکان، قرض اتارو ملک سنوارو، نیا پاکستان، تبدیلی آ نہیں رہی آگئی ہے اور مدینے کی ریاست کے سبز باغ دکھانے والے ایک بار پھر مسند اقتدار پر قابض ہیں یہ بظاہر ایک دوسرے سے لڑتے نظر آتے ہیں اور اقتدار کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچتے ہیں مگر اسلام کے خلاف ان کا ایجنڈا مشترکہ ہے یہ ظالموں کے ساتھی، فحاشی و بے حیائی کے رسیا جرائم کے پشتیبان ہیں ابھی حال ہی میں اس کی مثال انہوں نے ماضی کی اپنی روش کے مطابق پیش کی کہ جناب وزیر اعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ عورتوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کو چوک پر پھانسی دینی چاہیے یا ان کی آختہ کاری کردینی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان میں اس جرم کی سزا موجود نہیں ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے اور مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے؟ نہیں بلکہ ایسا نہیں ہے بلکہ قانون موجود ہے۔ مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا ہے۔ روزانہ پیش آنے والے ان وقعات نے ایک طرف تو اس بات کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ پاکستا ن میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح کردیا ہے کہ یہاں امیروں کو ان کی مرضی کا انصاف مل سکتا ہے مگر غریب کو انصاف کے لیے قیامت کے دن کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ وہاں مالک یوم الدین پورا پورا بدلہ عطا فرمائے گا۔ دوسری بات یہ کہ وزیر اعظم کا یہ بیان کہ مجرموں کو چوکوں پر لٹکایا جائے یا ان کی آختہ کاری کردی جائے۔ یہ بات کس حوالے سے وزیر اعظم صاحب کہہ گئے کیونکہ شریعت میں ایسے تمام جرائم کی سزا بہت وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ شرعی قوانین کی موجودگی میں اپنی منتق ہانکنا کہا ں کی عقل مندی ہے۔ جب کہ آئین پاکستان کی رو سے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم نے پورے ملک میں عورتوں، بچوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ گزشتہ دنوں اس حوالے سے اسمبلی میں بحث ہوئی کہ اس جرم کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسمبلی میں بل پیش کیا جائے۔ مگر حکمران پارٹی خود اس معاملے میں تقسیم ہے۔ ان میں سے کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ اس جرم کی سزا سزائے موت ہونی چاہیے اور آدھے ان مجرموں کی ساتھ دلی ہمدردی رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سزائے موت اس کا حل نہیں ہے۔اب دیکھیے کہ اس جرم کے روک تھام کے لیے یہ کون سا قانون لاتے ہیں۔ آخر اس طر ح کے سفاک درندوں سے ان کو اتنی ہمددی کیوں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پورے ملک میں اسی طرح کے جرائم پیشہ لوگ ہی اقتدار پر متّمکن ہیں اور سابق حکراں ٹولہ بھی جو آج اپوزیشن میں بیٹھا ہے۔ ان کے پورے ماضی کے ریکارڈ کو پڑھ جائیے ان کا ماضی اسی طرح کے جرائم سے بھر پڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا فرد یا گروہ جس کی گٹھی میں جرائم کا زہر پڑا ہو وہ کیسے ان کے خلاف سخت قسم کے قوانین لائے گا۔ اس کی تو کوشش یہی ہوگی کہ ایسے قوانین اسمبلی سے منظور کرایا جائے کہ جس میں زیادہ سے زیادہ اس کو اور اس جیسے جرائم پیشہ لوگوں کو محفوظ راستہ مل سکے اور جرائم کے لیے ماحول زیادہ سازگار ہوسکے۔ یہ حکمراں طبقہ بھی اپنے پیش روؤں کا چربہ ہے۔ یہ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے حکمرانوں کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ یہ ایجنڈا دراصل ان کا بنا ہوا بھی نہیں ہے آنکھ کھائے اور منہ شرمائے والی بات ہے کہ جہاں سے قرض لے کر ان پیسوں کو اپنی عیاشی پر خرچ کرتے ہیں وہیں سے اس طرح کے ایجنڈے دیے جاتے ہیں اور ان پر قانون سازی اور عمل درآمد کی ہدایات بھی دی جاتی ہے۔
عوام کی بیداری میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی یہ طبقہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا۔ اور ہر طرح کے جرائم سے اس ملک کو بھر دے گا کیونکہ یہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تمام ملک کے ادارے خرید نے سے دریغ نہیں کرے گا، یہ عدلیہ، پولیس اسمبلی اور سینیٹ تک کو خرید چکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہیکہ اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے جو ادارے قانون سازی کررہے ہیں۔ جو اس کو قانونی تحفظ فراہم کررہے ہیں وہ تو اس گروہ نے خرید لیے ہیں اور جو ادارے اس طرح کی کوششوں پر خاموش ہیں ان پر کام جاری ہے۔
اے میرے وطن کی بہنوں! تمہیں اپنے شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ تم اس ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہو تم کو یہ لبرلز اور سیکولرز ذلت کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ تم اپنی اہمیت کو پہچانوں تم کو اگر عزت، وقار نصیب ہوگا تو اس نظام سے ہوگا جو رسول اللہ لائے تھے ان ہی کے دامن میں امان ہے۔ اس کے سوا کسی نظام نے نہ پہلے عورت کو اس کا حق دیا تھا اور نہ آئندہ دے سکتا ہے۔ تمہاری گود میں قوم کا مستقبل پروان چڑھتا ہے۔ تمہاری غفلت پوری قوم کی تباہی کا پیغام ہے۔