بھارت ،ایک اور تاریخی مسجد کی جگہ مندر بنانے کا منصوبہ

1477
لکھنؤ: بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر متھرا میں تاریخی شاہی عید گاہ مسجد ، جسے منہدم کرکے مندر بنانے کی سازش کی جا رہی ہے‘ چھوٹی تصویر میں مسجد کے قریب مندر بھی واضح ہے

لکھنؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر متھرا میں انتہاپسند ہندؤں نے تاریخی شاہی عید گاہ مسجد کو ہتھیانے کی سازش شروع کردی۔ ایودھیا میں بابری مسجد پر قبضے اور مندر کی تعمیر شروع ہونے کے بعد انتہا پسند وں نے متھرا کی تاریخی مسجد کو بھی کرشنا کی جنم بھومی قرار دے کر ملکیت کا دعویٰ کردیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اترپردیش میں آگرہ سے 50 کلومیٹر اور نئی دہلی سے 145 کلومیٹر دور متھرا میں تاریخی شاہی عید گاہ مسجد واقع ہے۔ مقامی انتہاپسند رہنما کرشن وبراجمان کا عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہنا ہے کہ کرشنا کی جائے پیدایش ہونے کے باعث وہاں کی زمین پر کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ قائم نہیں ہونی چاہیے۔ مقدمے میں الزام عائد کیا گیا کہ مغل دور میں 13.37ایکڑ اراضی پر قبضہ کرکے مسجد اور عید گاہ تعمیر کی گئی تھی، اب چوں کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مندر کی تعمیر کا حکم دیا جا چکا ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ کرشنا کی جنم بھومی کے قریب مسجد کو مسمار کرکے اس پر بھی مندر قائم کیا جائے۔ وکیل رنجنا اگنی ہوتری کی جانب سے دائر سے کیے گئے مقدمے میں مندر کی تعمیر کے لیے عید گاہ کی زمین مانگی گئی ہے۔ واضح رہے کہ مسجد کے قریب ہی کرشنا کمپلیکس کے نام سے مندر کی ایک بڑی عمارت موجود ہے، جو ہندوؤں کی مذہبی نمایندگی کے لیے کافی ہے، تاہم انتہاپسند اب قریب میں کسی مسجد کو گوارا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہندو رہنما کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ کرشنا کی جائے پیدایش کے آس پاس کی پوری زمین کے ذرے ذرے پر ہندوؤں کا حق ہے اور وہاں کسی مسجد کے وجود کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سے قبل الٰہ آباد میں اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد کی میٹنگ میں سادھو سنتوں نے متھرا میں کرشن جنم بھومی اور کاشی وشو ناتھ مندر کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارتی قانون کے تحت 15 اگست 1947 ء کے بعد سے تمام مذہبی مقامات اس مذہب کے ماننے والوں کے پاس رہیں گے۔ اسے پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 ء کہا جاتا ہے، تاہم بابری مسجد کو اس قانون مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔