پاکستان میں ٹیکس کلچر

1150

ویسے تو یہ دنیا لاکھوں سال پرانی ہے لیکن جب سے انسانی زندگی نے اجتماعیت کی شکل اختیار کی کوئی نظم و ضبط، کوئی قاعدہ قانون، کسی سیاست، کوئی حکومت کا سلسلہ شروع ہوا تو اجتماعی تحفظ، دفاع اور نظام کو چلانے کے لیے لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کا نظام ساتھ ہی ساتھ قائم ہوگیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر ہم اپنے محلے کی سیکورٹی کے لیے چوکیدار یا گارڈ رکھتے ہیں تو اس کی تنخواہ کا انتظام محلے کے تمام لوگ مل کر کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی حکومتوں کو دفاع، سیکورٹی، نظم و ضبط اور عوام الناس کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جس رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ ٹیکسوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی ایک سنجیدہ اور گنجلک عمل ہے کیوں کہ ٹیکس کی چوری اور ٹیکسوں سے بچنا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اسی لیے دنیا کے اکثر ممالک میں ایسا منظم، مربوط عمل اور متناسب نظام قائم ہے کہ ٹیکس چوری تقریباً ناممکن ہے۔ اس نظام کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے جسے مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کا تناسب (Tax to GDP Reality) کہا جاتا ہے۔ یہ تناسب جتنا بلند ہوگا اتنا ہی ٹیکسوں کا نظام اس ملک میں بہتر ہوگا اور اسی حساب سے عوام کو پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، صفائی اور سیوریج کی سہولتیں بہتر ملیں گی۔ یورپی ممالک میں 30 سے 40 فی صد ہے، ویتنام میں 19 فی صد، چین میں 17 فی صد، سری لنکا میں 15 فی صد، انڈیا میں 18 فی صد، بنگلا دیش میں 8 فی صد اور پاکستان میں 10 فی صد ہے۔ جب کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث گزشتہ مالی سال میں 9 فی صد رہا اور سال 2019-20ء میں 3967 ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں جمع ہوئے۔ جب کہ ہدف ساڑھے 5ہزار ارب روپے تھا، رواں مالی سال کے لیے ہدف 5 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے۔
حال ہی میں ایف بی آر (FBR) نے 30 جون 2018ء کے ختم ہونے والے سال کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کی ہے جس میں 14 ستمبر 2020ء تک جمع کرائے جانے والے ٹیکس گوشواروں کی تفصیل موجود ہے اس تفصیل میں پاکستان کے بااثر، بالادست اور امیر طبقے اور اعلیٰ کاروباری لوگوں کا ٹیکس جمع کرنے کے معاملے میں جو سوچ پائی جاتی ہے اس کی ایک جھلک اس ڈائریکٹری میں نظر آتی ہے۔ مثلاً پنجاب جو اس ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے سب سے زیادہ آبادی ہے جہاں سے سب سے زیادہ ٹیکس گوشوارے جمع کرائے جاتے ہیں یعنی کل گوشواروں کا 60 فی صد لیکن مجموعی ٹیکس کا صرف 35 فی صد وہاں سے جمع ہوتا ہے جب کہ صوبہ سندھ جہاں سے جمع کرائے جانے والے گوشوارے کی شرح صرف 27 فی صد ہے کل ٹیکس کا 45 فی صد یہاں سے جمع ہوتا ہے اور اس کی وجہ کراچی ہے جہاں کے 95 بازاروں سے 98 ارب 11 کروڑ ٹیکس جمع ہوا۔ جہاں تک ارباب اقتدار کا تعلق ہے 4 وفاقی اور ایک وزیر مملکت کے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ اسی طرح 4 ایم این اے اور ایک سینیٹر نے ایک ہزار سے کم ٹیکس دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، عامر محمود کیانی، محبوب سلطان، محسن داوڑ، زرتاج گل نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اسی طرح ان اسمبلیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک ہزار روپے سے کم ٹیکس دیا۔
یہ تو افراد کا معاملہ ہے جب کہ دوسری طرف معیشت کے دو اہم شعبے یعنی زراعت اور خدمات ان کا ٹیکسوں کی ادائیگی میں بہت کم حصہ ہے مثلاً خدمات یا سروسز جن کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں تقریباً 60 فی صد حصہ ہے لیکن ٹیکس ادائیگی میں صرف 8 فی صد ہے۔ مثلاً ریٹیل اور ہول سیل کا سیکٹر کا حجم بہت زیادہ ہے جب کہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں بہت پیچھے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں کمی کی یوں تو بے شمار وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم ایف بی آر میں لیڈر شپ کی کمی ہے گزشتہ 2 سال میں 4 مرتبہ چیئرمین تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمین میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی طرح ٹیکس شرح اور ٹیکس پالیسیوں میں کمزوریاں ہیں جن کو دور کرنے سے ٹیکسوں کی وصولی بڑھ سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹیکس بنیاد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اب تک پاکستان میں تنخواہ دار طبقے اور کمپنیز یا کاروپریشنز پر ہی تمام ٹیکسوں کا بوجھ ہے۔ ایسے ایسے پیشے جن میں لوگ ایک دن میں لاکھوں کماتے ہیں ان کی آمدنی پر نہ ہونے کے برابر ٹیکس ہے مثلاً ڈاکٹرز، وکلا، کنسلٹنٹس، بلڈرز، ٹرانسپورٹرز۔ ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں آنے والے بجٹ میں ہدف پورا کرنے کے لیے پوائنٹ آف سیل پر برقی ڈیوائس لگانے کا بھی پروگرام بنایا ہے لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ ملک کا بااثر اور بالادست طبقہ اپنے حصے کا مکمل ٹیکس دے تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔