حکومت کے ہاتھ پیروں سے مہندی کب اترے گی؟

289

مشرقی خاص طور پر ہندوپاک کے سماج میں مشہور ہے کہ جس عورت نے زندگی بھر گھر کا کام کاج نہیں کرنا ہوتا، وہ نئی دولہن بنی بیٹھی رہتی ہے۔ سیاسی میدان میں بھی ایک اصطلاح ہے، جسے ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر کسی بھی نئی حکومت کے ابتدائی 100 روز یا زیادہ سے زیادہ پہلا سال ہوتا ہے۔ اس دوران حزبِ مخالف کو لحاظ مروت کرتے ہوئے نومنتخب حکومت پر تنقید یا دباؤ ڈالنے سے احتراز کرنا ہوتا ہے۔ یہ مروجہ سیاست کی روش ہے، حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بھی حکومت آئے، پہلے دن سے خود کو احتساب کی تلوار پر لٹکا سمجھے، تاکہ ذمے داری کا مظاہرہ کرسکے۔ تاہم جو طرز رائج ہوگیا، ہم بھی اس پر زیادہ نقد نہیں کرتے، لیکن موجودہ حکومت کے 2 سال گزر جانے کے بعد یہ پوچھنے کا تو حق رکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے ہاتھ پیروں سے مہندی کب اترے گی؟ یہ ہمارا ہی نہیں 20کروڑ عوام کا بھی سوال ہے، جن میں تحریک انصاف کے ووٹر اور حامی بھی شامل ہیں۔ وطن عزیز کے شہری منتظر ہیں کہ موجودہ حکومت کب کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی، لیکن وزیراعظم عمران خان اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہماری حکومت نئی ہے۔ ان کا یہ بیان پڑھ کر یہی سمجھ آتا ہے کہ موجودہ حکومت 2 سال بعد بھی یہ سمجھ رہی یا باور کرانے کی ناکام کوشش کررہی ہے کہ اس کا ہنی مون پیریڈ اب بھی جاری ہے۔ ساتھ ہی وزیراعظم اپنے باقی ماندہ ڈھائی سال سے متعلق بھی کوئی اچھی پیش گوئی نہیں کررہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات 2 سے 3 سال میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ غالباً ان کا اشارہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی عبوری اور منتخب حکومتوں کی جانب ہے کہ وہی کچھ کریں گی، ہم سے تو کچھ نہیں ہو رہا۔ البتہ موجودہ حکومت کی لے دے کر جو کارکردگی ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر دھواں دار بیان بازی ہے۔ اس میں وزیراعظم کو شکوہ ہے کہ ان کی ٹیم مخالف گروہ کے ساتھ کھیل جاتی ہے۔ وزیراعظم ڈائریکٹرز نیوز سے ملاقات میں کہ گئے ہیں کہ ہماری کابینہ میں ایسے بھی وزرا ہیں، جو اپنی ہی گول پوسٹ میں گیند پھینک دیتے ہیں۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم کو جہاں اپنی ٹیم کی صفر کارکردگی کا اعتراف ہے، جس کا اظہار وہ چند ماہ قبل کابینہ کے ایک اجلاس میں بھی کرچکے ہیں، وہیں انہیں احساس ہے کہ ان کی ٹیم کے ارکان سارا دن میڈیا پر بیٹھ کر جو بیان داغتے رہتے ہیں، وہ ان کی حکومتی ساخت کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں، لیکن کیا وزیراعظم نے کبھی سوچا کہ پاکستان میں غیرذمے دارانہ بیان بازی کی یہ روش کس نے شروع کی تھی؟ کون کنٹینر پر چڑھ کر انتشار، اشتعال اور عدم استحکام کی دعوت دیتا رہا ہے؟ آج حکومت کی اپنی ساخت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اسے مختلف خدشات نے گھیر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ استعفے دے، میں انتخابات کرا دیتا ہوں۔ لیکن وزیراعظم کے اس بیان میں جرأت سے زیادہ خوف کا پہلو ہے۔ وزیراعظم اپوزیشن کے مستعفی ہونے پر ضمنی انتخابات کرانے کی پیش کش کیوں کررہے ہیں؟ موجودہ سیٹ اپ میں ضمنی انتخابات جیسے تجربے سے ملک میں سیاسی خلفشار ہی بڑھے گا۔ اس کے بجائے حکومت خود مستعفی ہو کر شفاف انداز میں عام انتخابات کرا دے، تاکہ ملک میں جاری یہ سیاسی رسہ کشی ختم ہو اور سیاست دان عوامی مسائل کی طرف توجہ دے سکیں۔