غلامی کا وسیع دائرہ FATF 

618

بدھ 16ستمبر حکومت نے آہنی یکسوئی سے کام لیتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کسی بحث کے بغیر آٹھ بل منظور کرا لیے۔ جن میں اینٹی منی لانڈرنگ بل، اینٹی ٹیررازم بل اور اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری وقف پراپرٹیزبل 2020 شامل ہیں۔ اس سے پہلے یہ بل قومی اسمبلی نے منظور کیے تھے لیکن سینیٹ نے مسترد کردیے تھے۔ مشترکہ اجلاس کی خصوصی بات یہ تھی کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس اکثریت نہیں تھی جس کے ازالے کے لیے رائے شماری کے روز 36اراکین کو غیر حاضر رہنا پڑا۔ ذرہ برابر بھی شک مت کیجیے کہ ایسا انہوں نے خوش دلی سے کیا تھا۔ انہیں کچھ پراسرار کالز موصول ہوئی تھیںجن میں انہیں غیر حاضر رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
ہماری تاریخ میں ٹیلی فون کال کی بہت اہمیت ہے۔ ٹیلی فون کال ہمیں جنگ اور محاذ آرائی کے، راستے سے روک کر صلح باہمی کی سمت گامزن کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب معاملہ عالمی طاقتوں کا ہو۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں اپنے غیر حاضر ارکان پر غصہ کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اسپیکر کو ہدف بنا رہی ہیں۔ حالانکہ اسپیکر نے جس ارفع طریقے سے مشترکہ اجلاس کی کارروائی کو ہینڈل کیا ہے وہ وفاداری بشرط استواری کی اعلیٰ مثال ہے۔
امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے 2013 کے الیکشن کے موقع پر کہا تھا پاکستان میں جمہوریت امریکی گھوڑا ہے۔ ابتدا میں کچھ سیاسی جماعتیں برطانوی استعمار کے زیر اثر امریکی مفادات میں رکاوٹ ڈالتی تھیں۔ برطانیہ کے عالمی زوال کے بعد امریکا نے پاکستان کے پو لیٹیکل سیٹ اپ میں اس طرح پنجے گاڑے ہیں کہ حکومت سویلین کی ہو یا فوجی بھائیوں کی، حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سب امریکا کی مٹھی میں ہوتے ہیں۔ جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ ہر رخ پر امریکا بیٹھا ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے لیے بھی بھارت کو ڈھال بنایا گیا ہے۔ اگر بھارت دشمن نہ ہوتا تو ہمارے حکمران کس کا نام لے کر عوام کو بہکاتے۔ ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں یہ دلیل گھڑی گئی کہ ’’اگر ہم یہ قوانین پاس نہیں کریںگے تو بھارت ہمیں بلیک لسٹ کروادے گا‘‘۔ پرویز مشرف نے بھی ایسے ہی بیانیے کا سہارا لیا تھا کہ اگر ہم طالبان کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوںگے اور اپنے فوجی اڈوں، راستوں اور سپلائی سمیت امریکا کو سہولتیں نہیں دیں گے تو امریکا ہمارا تورابورا بنادے گا۔ ایسے مواقع پر ماضی میں کشمیر کو بھی سبزباغ دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ کشمیر کاذ کو بچانے کے لیے امریکا کی حمایت ضروری ہے۔ ان تمام صلح جوئیوں اور سمجھوتوں کے نتیجے میں ہمیں خدا ملا اور نہ وصال صنم۔ پورا پاکستان خودکش دھماکوں اور طرح طرح کی تخریب کاریوں سے گونج اُٹھا۔ 70ہزار پاکستانی شہید اور 252ارب ڈالر کے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ آج ہم کشمیر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ڈومور اور ہماری چاکری جاری ہے۔ وہ جنگ جو امریکا طالبان سے میدان جنگ میں ہار چکا ہے ہمارے ذریعے مذاکرات کی میز پر جیتنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایف اے ٹی ایف وہ تلوار ہے جو آمادہ کرنے کے لیے ہمارے سر پر لٹکادی گئی ہے۔
ایف اے ٹی ایف یعنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ تیس برس پہلے جی سیون ممالک نے 1989 میں فرانس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیا تھا۔ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات تھا۔ امریکا میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ دہشت گردی کے لیے فنڈز کی فراہمی کی بھی روک تھام کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس کے بعد اکتوبر 2001ء میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی فنانسنگ کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عمل درآمد کروانے کی ذمے داری اسی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی۔ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں یکساں قوانین لاگو کروانے اور ان پر عمل کی نگرانی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ یہ ایف اے ٹی ایف کی وہ میٹھی میٹھی باتیں ہیں جو عموماً دہرائی جاتی ہیں۔
بدھ کو منظور ہونے والے انسداد منی لانڈرنگ بل کے تحت منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو دس سال تک قید اور اڑھائی کروڑ جرمانہ ہوسکے گا۔ نئے قواعد میں شامل ’اسلام آباد وقف املاک بل 2020‘ کے مطابق وفاق کے زیرانتظام علاقوں میں مساجد، امام بارگاہوں کے لیے وقف زمین چیف کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہوگی اور اس کا انتظام و انصرام حکومتی نگرانی میں چلے گا۔ بل کے مطابق حکومت کو وقف املاک پر قائم تعمیرات کی منی ٹریل معلوم کرنے اور آڈٹ کا اختیار ہوگا، وقف کی زمینوں پر قائم تمام مساجد، امام بارگاہیں، مدارس وغیرہ وفاق کے کنڑول میں آ جائیں گی، وقف املاک پر قائم عمارت کے منتظم منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے تو حکومت ان کا انتظام سنبھال سکے گی۔ یوں ابتداً اسلام آباد کی حدتک حکومت اور عالمی قوتوں کی ایک خواہش پوری ہوگئی جسے بعد میں پورے ملک تک توسیع دینے سے پھر کون روک سکے گا؟
ایف اے ٹی ایف وقتاً فوقتاً ایک فہرست جاری کرتی ہے، جس میں ان ملکوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں، جو اس کے خیال میں کالے دھن کو سفید اور دہشت گردی کی مالی پشت پناہی کرنے میں معاون کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ منگولیا، کمبوڈیا، یمن، شام، آئس لینڈ، گھانا، بوٹسوانا اور زمبابوے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ ایران اور جنوبی کوریا ہائی رسک ممالک میں شامل ہونے کی وجہ سے بلیک لسٹ ہیں۔ گرے لسٹ اور بلیک لسٹ ممالک کی فہرست کو دیکھا جائے تواس میں ہمیں امریکا کا نام نظر نہیں آتا جہاں دنیا بھر کے دہشت گرد امریکی مہربانیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ہمیں کئی ایک ایسے ممالک کے نام بھی نظر نہیں آتے جو عالمی سطح پر دہشت گردی کو رواج دینے پیش پیش ہیںکیونکہ وہ امریکا کے منظور نظر ہیں مثلاً اسرائیل۔ ایسے یورپی ممالک بھی ان فہرستوں میں موجود نہیں جو منی لانڈرنگ کی رقوم کو قبول کرنے اور لانڈرنگ کرنے والی شخصیات کو اپنے ممالک میں پناہ دینے کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف امریکا کی مرضی کے مطابق نہ چلنے والے ممالک کے خلاف انتقامی کارروائی اور انہیں حاصل سہولتوں کو برباد کرنے والاادارہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں بلیک لسٹ ہونے کا اثر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات پر پڑ سکتا ہے، کریڈٹ ریٹنگ اور مالی ساکھ، کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔ جو بھی ادائیگی یا سافٹ لون آنے والے ہوں گے، اس کی زیادہ کڑی چھان بین ہوگی۔ دنیا سے قرضہ لینے اور ملکی معیشت چلانے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے متعلقہ ممالک ہر وہ کام کرنے پر مجبور ہوں گے جو وہ نہیں کرنا چاہتے یا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کے باب میں فلاحی تنظیموں پر پابندی، دینی مدارس، مساجد کشمیر پالیسی میں تبدیلی، اور نہ جانے کیا کیا کچھ سب ایف اے ٹی ایف کے اہداف ہیں۔ یہ غلامی کا وسیع دائرہ ہے جس کے زیرعتاب ممالک ایف اے ٹی ایف اراکین کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوں گے۔ وہ اس خوف سے نکل ہی نہیں سکتے کہ یہ ملک کسی بھی وجہ سے ان کے خلاف ایف اے ٹی ایف میں ووٹ نہ دے دیں۔ خارجہ پالیسی ان ممالک کی مرضی سے ہٹ کر تشکیل دینے کا تصور بھی محال ہوگا۔ باطل کے ساتھ مصالحت ایسے ہی نتائج جنم دیتی ہے۔