مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی !

891

قاضی حسین احمدؒ
سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

. 26اگست 1941ءکو لاہور میں پورے برصغیر پاک و ہند سے کچھ لوگ جو پہلے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر تھے اور ماہنامہ ترجما ن القرآن کے ذریعے ان کے افکار و نظریات اور ان کی ذات گرامی سے بخوبی واقفیت بھی رکھتے تھے ¾ ان کی دعوت پر جمع ہوئے اور”جماعت اسلامی“ کے نام سے ایک مختصر سی نئی جماعت وجود میں لائے۔ اس جماعت کی پشت پر وہ فکری رہنمائی تھی جو کئی سال سے مولانا مودودیؒ انفرادی طور پر فراہم کر رہے تھے اور جس میں خود علامہ اقبال مرحوم کے مشورے بھی شامل تھے۔ مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبال ؒ کے درمیان گہرا تعلق اس امر سے واضح ہوجاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے نزدیک ”دارالاسلام “ کے نام سے جماعت اسلامی کا جوپہلا مرکز قائم ہوا ، اس کے لیے زمین علامہ اقبالؒ کے توسط سے فراہم ہوئی تھی۔ یہ زمین علامہ اقبال ؒ کو پنجاب کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی صاحب نے اس مقصدکے لیے پیش کی تھی کہ اس پر دین کا کام کرنے کے لیے کوئی مرکز بنائیں ۔ علامہ اقبال ؒ نے اس کے لیے مولانا مودودیؒکا انتخاب کیا اور ان کو دعوت دی کہ وہ اس پر ایسا مرکز بنائیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو نہ تو کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی انکار کرسکتا ہے ۔ یہ تاریخی حقیقت ان تمام اعتراضات اور الزامات کی بھی تردید کردیتی ہے جو پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ پر لگائے جاتے ہیں۔ مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ نے خود پورے برصغیرہند و پاک میں مولانا مودودیؒ کو اس قابل سمجھا کہ وہ ایک ایسی بستی اور مرکز کی بنیاد رکھیں جہاں سے برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی ٹھیک اور درست رہنمائی ہوسکے۔ وہ زمین تو اب ہندوستان میں متروکہ املاک میں شامل ہے لیکن وہ لوگ جنھوں نے یہ زمین دی تھی وہ اب بھی جماعت اسلامی کے زیر انتظام ادارہ دارالاسلام جوہر آباد سے وابستہ ہیں اور جماعت کا ان کے ساتھ رابطہ اور تعلق بھی قائم ہے ۔
جماعت اسلامی کی تنظیم کیوں قائم کی گئی ۔ اس کی کیا ضرورت تھی جبکہ اس وقت مسلم لیگ اور مسلمانوں کی دیگر جماعتیں پہلے ہی سے موجود تھیں ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کوئی ایسے آدمی نہیں تھے کہ محض ایک اضافی جماعت بنانے کے لیے یا اپنی لیڈر شپ چمکانے کے لیے ان کو کسی نئی جماعت کی ضرورت پڑتی ۔ انھوں نے ترجمان القرآن میں تفصیل کے ساتھ وہ وجوہات اور اسباب بیان کردےے تھے جس کے نتیجے میں وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک ایسی نئی جماعت کی ضرورت ہے جو ان مقاصد کی حامل اور اس طریق کار پر کاربند ہو جیسی اللہ کے حکم پر حضور نبی کریم انے صحابہ کرامؓ کی معیت میں بنائی تھی، جس کے نتیجے میں ایک انقلاب برپا ہوا تھا اور اس کی متابعت میں آج کوئی ایسی جماعت موجود نہیں ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اس امت کے آخر میں بھی اصلاح اسی طریقے پر ہوگی جس طریقے سے اس امت کی اصلاح ابتداءمیں ہوئی تھی ۔ حضورنبی کریم انے جن مقاصد کے لیے اور جس طریق کار کی بنیاد پر جماعت بنائی تھی آج انھی مقاصد کے لیے اور اسی طریق کار کی بنیاد پرجو جماعت بنے گی تو ہی امت کی اصلاح ہوسکے گی ۔ اللہ اور اس کے رسول انے امت کی جو ذمے داری بیان کی ہے اس کے لیے امت کو دوبارہ مجتمع اور متحد کرنا ناگزیر ہے اور اس کے لیے ایک منظم جماعت کی ضرورت ہے جس کی وضاحت مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تاسیس جماعت سے پہلے کردی تھی ۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ مولانا مودودیؒنے اپنی طرف سے کوئی نئی فقہ نہیں دی ہے بلکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں امت مسلمہ کو ایک مقصد کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ تاہم بعض لوگوں نے انھیں بھی علامہ اقبال کی طرح موضوع تہمت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔
کتاب و سنت کے مطابق عقیدے کی تفصیلی تشریح کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒنے یہ بھی بتایا کہ جماعت اسلامی کا مقصد حقیقی کیا ہے؟انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا مقصد صر ف اللہ رب العالمین کی رضا کا حصول ہے ۔ ہماری ساری جدوجہد اس لیے ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور آخرت میں ہمیں فلاح اور کامیابی نصیب ہو ۔ اس مقصد حقیقی کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
(ترجمہ) یقینا حضورنبی کریم ا کی مبارک زندگی میں بہترین نمونہ ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح چاہتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔ (الاحزاب ۳۳۔ آیت ۱۲)
مقصد حقیقی جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے وہ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا حصول ہے ۔ اس کے لیے راستہ کون سا ہے ؟ اسے لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوة ً حسنہ کے الفاظ ربانی میں واضح کر دیاگیا ہے کہ تمام مسلمانوں کے لیے رسول اللہ ا کی زندگی بہترین نمونہ ہے ۔ اسی کی پیروی میں اللہ کی رضا بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی۔
حضورنبی کریم ا،خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓکے مبارک دور میں اصلاح کے لیے جو طریق اختیار کیا گیا تھا اس کے تمام اصولوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں جمع کرکے ان کے مطابق جماعت اسلامی کی تنظیم کی گئی ہے ۔ جماعت اسلامی کی تشکیل کے موقع پر وقت کے علمائے کرام کو بھی شریک مشورہ رکھا گیا تھا ۔ تاسیس جماعت سے پہلے علامہ اقبالؒبھی مشورے میں شامل رہے ہیں ۔ ابتدائی ارکان جنھوں نے جماعت کی تاسیس میں حصہ لیا تھا ، ان میں دو بہت بڑے نام ہیں اگرچہ وہ بعد میں جماعت میں نہ رہے لیکن وہ جماعت اسلامی کی تشکیل میں نہ صرف شریک مشورہ رہے ہیں بلکہ جماعت کا دستور بھی انھی کے مشوروں سے بنا ۔ اس میں ایک نام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒکا ہے جو مولانا مودودیؒ کی طرح سارے عالم اسلام اور پورے عالم عرب میں ایک معروف شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کتابوں کو پورے عالم اسلام میں قبولیت عامہ حاصل ہے ۔ دوسرا نام مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کا ہے جو ایک سو سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔ صاحب تصنیف عالم دین تھے اور علماءکے تمام گروہ ان کا احترام کرتے تھے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہمیشہ کوشاں رہے کہ اکابر امت متحد ہوجائیں ۔ جو لوگ ان کے ساتھ نہ آسکے ان کے بارے میں کبھی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ غلط راستے پر ہیں ۔ جماعت اسلامی امت کو متحد کرنے کی ایک تحریک ہے جسے مولانا مودودیؒ نے شروع کیا تھا ۔ اگر جماعت اسلامی کوئی فرقہ ہوتی اور ہم کوئی مکتب فکر ہوتے تو ہم اتحاد اور اتفاق کے لیے کوئی خدمت انجام نہ دے سکتے ۔ یہ خدمت اسی لیے سرانجام دینے کے قابل ہیں کہ ہم نے کسی خاص مکتب فکر کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہیں کیا ہے۔
لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہمارا عقیدہ ہے اور دعوت الی اللہ ہمارا طریق کار ہے ۔ جولوگ اس عقیدے اور طریق کا رکو قبول کرلیں،قرآن اور سنت کے مطابق جماعت ان کی تربیت کرکے انھیں معاشرے کی اصلاح اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں لگادیتی ہے تاکہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کو پاسکیں ۔ اس عقیدے اور طریق کار پر کسی بھی مسلمان کا چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اس لیے جب ہم بلاتے ہیں تو سب لوگ آجاتے ہیں۔ جب ہمیں بلایا جاتا ہے تو ہرگروہ میں ہم چلے جاتے ہیں۔ اعتدال کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے کوئی مخصوص مسائل نہیں بنائے جن پر ہم اصرار کرتے ہوں، اورنہ ہی ہم نے فروعی مسائل کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا ہے ۔ ہم نے ایک عمومی اور مشترک دعوت دی ہے اور اس پر پوری امت کو متحد کرنے کی ایک تحریک چلائی ہے جس کے نتیجے میں امت کے اندر اتحاد اور اتفاق پیدا ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر مجلس میں جا سکتے ہیں اور ہر ایک سے بات کرسکتے ہیں ۔ ہمارے دلوں میں وسعت ہے جو حضورنبی کریم ا کا طریقہ ہے ۔