سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بحیثیت نثر نگار

622

لیاقت بلوچ
نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان
سید مودودی ؒ کو ہم سے جدا ہوئے 41 سال بیت گئے ہیں ۔ ان کی فکر آج چہار عالم میں پھیل چکی ہے ۔ دنیا ان کی فکر کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے ۔ درحقیقت بیسویں اور اکیسویں صدی میں جن شخصیات کے افکار نے پوری دنیا ، بالخصوص مسلم دنیا کو متاثر کیاہے ان میں علامہ اقبال ؒ ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ، حسن البناءشہید ، سید قطب شہید کے نام نمایاں ہیں ۔ ان عظیم ہستیوں خصوصاً سید مودودی ؒ کے افکار ، ان کی حیات ، خدمات اور احیائے اسلام ، اقامت دین کی جدوجہد کے تمام پہلوؤں کو آج کل سے زیادہ محفوظ کرنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب خال خال ہی وہ افراد بقید حیات ہیں جن کو مولانا مودودی ؒ کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا اور جو ان کے ہم عصر تھے ۔41برس گزرنے کے بعد نئی نسل تک ان کی فکر اور احیائے اسلام کے لیے جدوجہد کو منتقل کرنا جہاں ایک ضرورت ہے وہاں سید مودودی کا ہم پر قرض ہے ۔ بلاشبہ اس حوالہ سے مولانا مودودی پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے رفقا ءنعیم صدیقی ، سید اسعد گیلانی ، آباد شاہ پوری ، رفیع الدین ہاشمی اور سلیم منصور خالد اور دیگر احباب نے بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان پر سوانحی رنگ غالب ہے تاہم ادبیات مودودی کے نام سے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے ایک گراں قدر کاوش کی تھی جس کے تحت مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا، جس میں معروف اہل قلم کی تحریریں پیش کی گئیں اور مولانا مودودی کے طر ز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ۔
مولانا مودودی کے افکار اور ان کی جدوجہد اور لٹریچر تو زیر بحث آتے رہے ہیں لیکن مولانا مودودی بحیثیت نثر نگار کا جس علمی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت تھی اس طرف کم توجہ دی گئی ۔ڈاکٹر محمد جاوید نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جو کہ خود مولانا مودودی کے ہم عصر اور ان کے رفقا میں سے ہیں کی نگرانی میں اس موضوع پر کام کیا او راس کا حق ادا کیا ۔
کسی بھی شخصیت کے کام کا صحیح معنوں میں اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتاہے کہ وہ پس منظر اور حالات سامنے ہوں جن میں انہوں نے کام کیا اور جدوجہد کی ۔ سید مودودی ؒ نے جس عہد میں علمی و فکری جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے افکار پیش کرنے کے لیے قلمی میدان چنا وہ کٹھن دور تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب کی بالادستی اور جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا جس نے مسلمانوں کو سحر زدہ کر رکھاتھا اور شکست خوردگی کی کیفیت سے مسلمان دوچار تھے اور دوسری طرف الحاد ، دہریت ، اباحیت کے فتنے سے دین و ایمان کو خطرات لاحق تھے ایسے میں ایک ایسے فرد کی ضرورت تھی جو جدیدو قدیم پر نظر رکھتاہو اور پورے اعتماد سے مغربی افکار کا منہ توڑ جواب دے سکے ۔ ایسے میں سید مودودی ؒ کی شخصیت ابھرتی ہے اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔
مولانا کی نثر کا ایک نمایاں پہلو تفسیر القرآن اور سیرت نگاری ہے ۔ تفہیم القرآن جہاں شاہکار ہے، وہاں سیرت نگاری بھی انفرادیت کی حامل ہے ۔ آپ نے سیرت نگاری کو واقعاتی انداز کے بجائے تحریکی انداز میں پیش کیاہے جو ایک منفرد انداز تحریر ہے ۔ یہ بلاشبہ تفسیر اور سیرت میں مولانا مودودی کا اجتہاد ی کارنامہ ہے ۔
مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب ؒ اپنے دور میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ پر سخت تنقید کرنے والوں میں سے تھے ۔1973 ءمیں بنگلہ دیش نامنظور مہم کے سلسلے میں مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم پنجاب کی حیثیت سے وفد کے ساتھ ایم این اے ہاسٹل اسلام آباد میں ان سے ملاقات کا موقع ملا ۔ ہم بنگلہ دیش نامنظور کے حوالے سے یاد داشت ممبران پارلیمنٹ کو دے رہے تھے جب مولانا غلام غوث ہزارو ی کے کمرہ میں ان سے گفتگو ہوئی تو دیکھا کہ ان کے کمرہ کی میز پر مولانا مودودی کی کتب تفہیم القرآن سوئم ، پردہ ، سود وغیرہ پڑی تھیں اور ان میں یاد داشت کے لیے کاغذ رکھے ہوئے تھے ۔ ہم نے کہاکہ مولانا آپ تو ہمیں منع کرتے ہیں لیکن یہ کتب آپ کے پاس کیسے ؟تو مولانا غلام غوث ہزارو ی نے فرمایا کہ ”بات تمہاری بھی ٹھیک ہے لیکن یہ ظالم لکھتا بہت اچھاہے ، بڑے دلائل ہوتے ہیں ، اسمبلی میں گفتگو کے لیے اچھی تیاری ہو جاتی ہے ۔“
آج کے دور میں مولانا مودودی ؒ کی فکر کی روشنی میںامت کے بکھرے شیرازہ کو اکٹھا کرنے کے لیے اتحاد امت ، نظام ریاست میں غلبہ دین کے لیے طاقت کی بجائے دعوت و تبلیغ ، ذہنی و فکری اصلاح اور افکار کی تطہیر کے ذریعے پرامن سیاسی ، جمہوری ، آئینی جدوجہد کے ذریعے قیادت و نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے ۔ عالمی استعماری قوتیں ناکام ہو رہی ہیں ۔ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہاہے ، اسلامی تحریکوں پر اگرچہ ابتلاو آزمائش کا دور ہے لیکن یہ امر نوشتہ ء دیوار ہے کہ مستقبل کا نظام قرآن وسنت کی تعلیمات اور مسلمانوں کی بیدار قیادت سے وابستہ ہے ۔
دانشور ، نقاد حضرات سے اپیل ہے کہ نام نہاد ترقی پسندی اور فلسفہ اشتراکیت ڈوب گیا ،اب سیکولرازم ، روشن خیالی ، مادر پدر فکری آزادی کی بجائے دینی اور نظریاتی بنیادوں پر ان تحریروں اور نگارشات پر بدلتے حالات کی حقیقت کو تسلیم کرلیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملی تعمیر کے لیے صحیح رخ پر استعمال کریں ۔