تہرے قتل کا کیس، ڈی آئی جی حیدر آباد کو فارغ کرنے کا عندیہ

199

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے تہرے قتل کے کیس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) حیدرآباد کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار دے دی اور پولیس کو 2 ہفتوں میں دونوں ملزمان کو گرفتار کرنے کی آخری مہلت دے دی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ملزمان گرفتار نہ ہوئے تو ڈی آئی جی صاحب آپ عہدے پر نہیں رہیںگے۔کاغذوں سے باہر نکل کر کام بھی کریں۔چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نے پولیس افسران کی جانب سے کوششیں کرنے کی بات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کوششیں کیا زمین میں گڑھے کھودنے کے برابر ہیں؟ آپ کو جو کام دیا گیا ہے وہ کرکے آئیں۔ عدالت میں پولیس نے جو رپورٹ دی وہ ایک رام کہانی ہے۔اس موقع پر ڈی آئی جی حیدرآباد نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے مزید وقت دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو مفرور ملزمان کو اگلے ہفتے تک گرفتار کر کے لائیں آپ کس پولیسنگ کی بات کررہے ہیں؟ آپ ریاست کی مشینری ہیں، پولیس والے کاغذوں سے باہر نکلیں، دو ملزمان مفرور ہیں،گرفتار کریں، آپ اس عہدے کے قابل نہیں اگر ملزمان گرفتارنہیں کیے تو نوکری سے فارغ ہو جائیں گے۔خیال رہے کہ درخواست گزار ام رباب کے والد، چچا اور دادا کو بااثر ملزمان نے قتل کردیا تھا جنہوں نے مقدمہ منتقلی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا۔17 جنوری 2018 کو ضلع دادو کے تعلقہ میہڑ میں تین افراد کے قتل کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو اور ان کے بھائی برہان چانڈیو سمیت سات افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔مقتولین کے لواحقین کا الزام تھا کہ ایم پی اے سردار خان چانڈیو کے کہنے پر برہان چانڈیو نے پولیس پروٹوکول کی موجودگی میں مختار چانڈیو، کابل چانڈیو اور کرم اللہ چانڈیو کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔