اسلام اور نوجوان

853

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا رول اس طرح سے بیان کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میںترقی بخشی‘‘۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے: ’’یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے وقت کے ظالم حکمراں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کا اعلان کیا‘‘۔ (سورہ الکھف :13 )
اللہ تعالی ٰ نے ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالمگیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے۔ ’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریںگے اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔ ً (سورہ الکھف :14) ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو رول ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ سیدنا موسیؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنہوں نے کٹھن حالات میں موسیؑ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے: ’’موسی کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘۔ (یونس :83) مذکورہ بالا آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو بہت ہی جامع اور معنی خیز بھی ہے۔سید مودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح پُر مغز انداز میں اس طرح کی ہے: ’’متن میں لفظ ذریۃ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ نوجوان سے کیا ہے دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پْرخطر زما نے میں حق کا ساتھ دینے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ ان کو خطرات سے پر نظر آرہا تھا۔ (ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی) احادیث رسول میں بھی نوجوانوں کے رول اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروہی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طر سے ہر فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا۔ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فر مایا: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ 1۔عمر کن کاموں میں گنوائی۔ 2۔جوانی کی توانائی کہاں صرف کی۔3۔ مال کہاں سے کمایا 4۔ اور کہاں خرچ کیا۔ 5۔ جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا۔ (ترمذی) اس حدیث مبارکہ میں چار سوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا اس میں جوانی کا دور بھی شامل ہے مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کا تعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے۔ اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علامہ اقبال نے ’’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘‘ فرمایا ہے۔ عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں اسامہ بن زید نے قیادت کی ذمے داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں خالد بن ولید نے بارگاہ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا۔ دور شباب ہی میں سیدنا علیؓ، مصعب بن عمیرؓ، عمار بن یاسرؓ اور چار عباد اللہ جن میں ابن عمر ، ابن عباس ، ابن زبیر اور ابن عمرو بن العاصؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام غزالی جیسے مجدد دین علوم کی گہرائیوں میں اترے، اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سر زمین پر جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں کو دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودیؒ نے تئیس سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آرا کتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ جن میں اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے۔ کیونکہ بڑے بڑے معرکے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔ عمر بن میمونؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص کو نصحیت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: 1۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے 2۔ صحت کو بیماری سے پہلے 3۔ خوشحالی کو ناداری سے پہلے 4۔ فراغت کو مشغولیت سے پہلے 5۔ زندگی کو موت سے پہلے۔ (ترمذی)