امامِ برحق ، داعی امت اور بندہ رب

510

محمد حسنین اوساوالا

تاریخِ اسلام میں جب کبھی نئے باب کا اضافہ کرنے والی شخصیت اٹھی ہےاُس نے اپنے پیچھے انصار اللہ کی فوج چھوڑی ہے۔ ایسی انقلابی شخصیات کے دنیا سے چلے جانے کےبعد پیروکاروں نے ہمت ہار کر مفارقت کے غم میں گریہ و زاری اور عقیدتوں کے بُت تراشنے کے بجائے اُس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیشہ مورچہ سنبھالے رکھا ہے۔ اسی تسلسل کے نتیجے میں نئے نئے انقلابی ذہنوں کو مکمل تیاری کے ساتھ منصبِ امامت سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔
ائۂا امت کی صف کےایسے ہی ایک امام سید ابو الاعلیٰ بن سید حسن مودودی ہیں۔ ۱۹۰۳ ء آپ کا سنِ پیدایش ہے۔ اور ۷۶ سال کی عمر پا کر ۱۹۷۹ ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ اخلاص و للٰہیت کا پیکر تھے۔ عاجزی و انکساری اور جرات و شجاعت کا حسین امتزاج تھے۔ صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی تھے۔ اعلی عمرانی علوم کے دقیق اور پیچیدہ مسائل پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ علماء سے علماء کی زبان میں بات کرتے تھے اور عوام سے اُن کے مزاج کے موافق گفتگو کا مَلکہ رکھتے تھے۔ گویا کَلِّمُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ کے مصداقِ کامل تھے۔
ہم نے ان کی زندگی کے چند گوشوں کو ترتیب دے کرکوشش کی ہے کہ ان کی دعوت ، مشن ،طریقۂ کار اور شخصی خوبیوں کو ایک مرتبہ پھر تازہ کیا جائے اور تمام داعیان دین کے لیے تذکیر کے طور پر یہ بات دہرائی جائے کہ کس طرح بطور داعی انہوں اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ احساس جوابدہی کے تحت گزارا ۔ ان بکھرے موتیوں کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے جو ہمیں آمادۂ جدوجہد کرے گا ۔ ان شاء اللہ
رب کی رضا ، اصل مقصود
مولانا مودودیؒ اس بات کے قائل تھے کہ خواہ کوئی چھوٹا کام ہو یا کوئی بڑی مہم درپیش ہو۔بندۂ مومن کے پیشِ نظر صرف رضائے الہی ہو۔ اسی نہج پہ انہوں نے اپنےکارکنان کی تربیت کی۔ ایک دن دستر خوان پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تھے۔ والدہ اپنے بچوں کو سمجھا رہی تھیں کہ ” بیٹا نماز پابندی سے پڑھا کرو۔ نماز نہیں پڑھوگے تو لوگ کیا کہیں گے کہ مولانا مودودی کے بچے نماز نہیں پڑھتے”۔ مولانا مودودی نے کھانے سے فارغ ہوکر چلتے ہوئے کہا” لیکن بیٹا، جب بھی نماز پڑھنا خدا کی پڑھنا۔ اپنے باپ کی پڑھنے کے لیے کھڑے نہ ہونا”۔ ( شجر ہائے سایہ دار، ص۶۰)
ذوقِ مطالعہ
مولانا مودودیؒ مختلف موضوعات پر وسیع مطالعہ اور سیاسیاتِ عالَم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ پروفیسر خور شید احمد رقم طراز ہیں “مطالعے میں مولانا مودودیؒ کا ذوق بڑا متنوع تھا۔ مزاح، شعر و ادب اور ادبی تنقید تک پڑھنے کے لیے وقت نکالتے۔ تمام معیاری ادبی رسالے اُن کے ہاں آتے ،جن میں تحریکی رسالوں کے علاوہ ہمایوں، نیرنگ خیال، نقوش، سویرا، فنون، ریڈرز ڈائجسٹ وغیرہ شامل تھے۔ گویا کہ قرآن و سنت، حدیث و فقہ، تاریخ و قانون اور فلسفے میں عربی کی ادق کتب کے ساتھ ساتھ کلاسیکی لٹریچر اور معاصر اصنافِ ادب کے مطالعے کو وہ ضروری چیز قرار دیتے تھے۔ اس ہلکے پھلکے لٹریچر کے لیے بھی وقت کی متعین حدود تھیں۔ جب کبھی بیرون پاکستان جاتے تو واپسی پر، اس عرصۂ غیر حاضری کے اخبارات ڈان، پاکستان ٹائمز، نوائے وقت اور جنگ کی بھی فائلیں منگوا کر دیکھتے”۔(ترجمان القرآن، اشاعت خاص، اکتوبر ۲۰۰۳، ص۹۸)
دوربیں ، دور رس
دار الاسلام پٹھان کوٹ میں دوران قیام کا واقعہ ہے ۔ جواہر لعل نہرو کا خادم خاص چھٹیوں پہ قریبی گاؤں آیا ہوا تھا۔ جماعت کے کام کی سن گن ملی تو مولانا سے ملاقات کے لیے آگیا۔ “مولانا سے گفتگو میں اس نے بڑے اہم سوالات کیے اور مولانا کے جوابات پر اس کے لیے اطمینان ہی نہیں حیرت کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ جیسے سوچتا ہو: ایسا جواب، اور اس گاؤں میں ایک مولوی کی زبان سے؟۔۔۔ مولانا دوران گفتگو متعدد بار اعداد و شمار پیش کرتے، وہ چونک سا جاتا تھا۔ ایک بار اس نے مولانا کے بتائے ہوئے اعداد و شمار پر شک کا اظہار کیا تو مولانا نے حوالہ پیش کردیا، غالباً کانگریس کمیٹی کی رپورٹ کا۔ آخر میں اُس نے مولانا مودودیؒ سے پوچھا:” آپ کو کب تک اپنے مقاصد میں کامیابی کی توقع ہے”؟ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر فرمایا:” کم سے کم دو نسلوں کے بعد”۔ وہ اس جواب سے بہت ہی متاثر اور مرعوب ہوا”۔ (ترجمان القرآن، اشاعت خاص، اکتوبر ۲۰۰۳، ص۲۲۸)
مطالعہ قرآن اور قرآن فہمی
چہار دانگ عالم کا مطالعہ ایک طرف۔ اور قرآن کا مطالعہ ایک طرف۔ اگر سب کچھ پڑھ کر بھی قرآن نہ پڑھا تو کچھ نہ پڑھا۔ قرآن مجید کا مطالعہ مولانا ؒکے معمولات کا حصہ تھا۔ اور محض تلاوت ہی نہیں بلکہ اس پر غور بھی کیا کرتے تھے۔ فرماتے ہیں ” جو قرآن کریم والد مرحوم کے زیر تلاوت رہتا تھاوہ میرے پاس موجود ہے۔ اُس کے حاشیے پر والد مرحوم کے نوٹس بھی ہیں ، اور میں نے بھی اپنے نوٹس اُس پر لکھ رکھے ہیں”۔ (تذکرہ سید مودودیؒ، جلد اول، ص۸۳۹)
اس موقعے پر فائدے سے خالی نہ ہوگا اگر مولانا مودودیؒ کے قرآن فہمی کے منہج اور تحقیق کے اسلوب کی ایک جھلک پیش کردی جائے۔یقینا یہ قارئین کے لیے باعث دلچسپی اور طلبہ و محققین کے انتہائی مفید ثابت ہوگا۔
خواجہ اقبال ندوی ؒ سے سوال کیا گیا کہ “مولانا نے قرآن کے مضامین و مفاہیم پر غور و فکر کرنے کے لیے کس اسلوب و منہاج کی طرف رہنمائی فرمائی تھی؟”
جواباً ارشاد فرمایا : ” مطالعے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا تھا کہ سب سے پہلے یکسو ہو کر اور دل کو تمام وَساوِس سے پاک کر کے بار بار پوری سورۃ کو پڑھ کر اُس کا مرکزی مضمون اور اُس مضمون کا قرآن کے اصل موضوع سے تعلق قائم کیجیے۔ پھر سورۃ کے مضامین اور مؤمنین و منافقین ، مشرکین و کافرین کے ساتھ جو انداز خطاب اختیار کیا گیا ہےاُس پر غور کر کے یہ معلوم کیجیے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت نبیٔ اکرم ﷺ کی دعوت کس مرحلے میں رہی ہوگی اور دعوت کو کس قسم کی رہنمائی کی ضرورت تھی جسے اِس سورۃ میں پورا کیا گیا ہے۔نیز جن لوگوں نے اِس دعو ت کو صدق دل سے نہیں مانا تھااور جو اِس کے مخالف تھےاُن کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرنے کی اِس سورۃ میں ہدایت فرمائی گئی ۔ یہ بات سمجھ میں آجانے کے بعد پھر سورۃ کو بار بار پڑھ کر یہ معلوم کیجیے کہ سورۃ کتنے خطبات پر مشتمل ہے اور کون سا خطبہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ پھر ہر خطبے کے مرکزی مضمون کا سورۃ کے مرکزی مضمون سے تعلق ، ربط آیات، ربط مضامین ، دلائل اثبات، طرز استدلال اور انداز خطاب پر غور کرتے رہیے۔ پھر ہر تفسیر کو پڑھیے ، اُس کے مباحث کو سمجھیے اور ہر کتاب کے مباحث سے تقابل کرتے رہیےاور ذہن میں جو سوال پیدا ہوں اُن کے جواب تلاش کرتے رہیے، یہاں تک کہ ہر بات سمجھ میں آجائے۔ اِس کے بعد جن چیزوں کے سلسلے میں مختلف اقوال و آراء منقول ہوں اُن میں عبارت کے سیاق و سباق اور اُس مرحلے کے پس منظر میں جس میں کہ متعلقہ خطبے کا نزول ہوا ہے، قولِ راجح اور اُس کے وجوہ و اسباب تلاش کیجیے۔ یہ سارا مرحلہ طے ہوجانے کے بعد مولانا نے ہدایت فرمائی تھی کہ ساری کتابیں رکھ دیجیے اور اپنا قرآن مجید اٹھا کر پوری یکسوئی کے ساتھ اِس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے کہ آپ کا دل محسوس کرتا رہے کہ لفظ زبان سے نہیں بلکہ دل سے نکل رہا ہے”۔ (تذکرہ سید مودودی، جلد دوم، ص ۳۰۵)
تحقیق و جستجو
یہ تو تھا قرآن پر غور کرنے کا معاملہ۔ رہا دیگر موضوعات پر تحقیق کا طریقہ، تو اُس ضمن میں پروفیسر خورشید احمد فرماتے ہیں کہ ” مولانا مودودیؒ نے اپنے طریق مطالعہ کے بارے میں مجھے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا تھا: میرا طریقہ یہ ہے کہ جس موضوع پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے ، میں پہلے اُس موضوع پر چند بنیادی چیزیں پڑھتا ہوں، تاکہ اس مسئلے کے بنیادی پہلو تمام تر پس منظر کے ساتھ سامنے آجائیں۔ پھر اس موضوع پر ایک دو کتب یا کم از کم انسائیکلوپیڈیا کے متعلقہ مقالات کو دیکھ لیتا ہوں تاکہ اس کا فکری اور عملی حوالہ معلوم ہو سکے اور عملی رجحانات کے بارے میں معلومات سامنے آجائیں۔ ان چیزوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس موضوع کا حدود اربعہ کیا ہے، اس کے بنیادی مقدمات یا KEY ISSUES کیا ہیں۔ مطالعہ کرنے کے دوران کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔ اس کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو کھولتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ ان امور پہ کیا رہنمائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے فقط ایک دو آیات پر غور کرنے کے بجائے پورے قرآن کریم سے مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں ۔ پھر دیکھتا ہوں کہ سیرت ، سنت، حدیث اور خلفائے راشدین ؓ کس انداز سے دستگیری کرتے ہیں۔ مطالعے کے دوران میں اپنے نوٹس بناتا ہوں۔ یہ سلسلہ میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں شروع کیا تھااور اسے کبھی نظر انداز نہیں کیا، سوائے اس کے کہ جیل کے زمانے میں جب تک کاغذ پنسل سے محروم رہا”۔ (ترجمان القرآن، اشاعت خاص، اکتوبر ۲۰۰۳، ص۹۵)
صبر و تحمل
مولانا مودودیؒ کی شخصیت میں صبر و تحمل ، حکمت و بردباری اور عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حکیم شمس الحسن صاحب دارالاسلام پٹھان کوٹ کا اپنا ایک تجربہ بیان فرماتے ہیں : ” مولانا مودودیؒ کے صبر وضبط کا ہم نے بار بار امتحان لیا، جس میں وہ ہر بار کامیاب نکلے۔ ایک بار نعیم صدیقی صاحب نے مولانا کے پاس سے آکر ہم رفقاء سے کہا : ” مولانا نے فرمایا ہے کہ مَیں ایک ضروری تحریر لکھ رہا ہوں اس لیے کوئی صاحب ملنے نہ آئیں۔” میرے مزاج میں جو بغاوت کا مادہ ہے وہ اُس دور میں ویسے بھی شباب پر تھا۔ مولانا کی ہدایت اور نعیم صدیقی صاحب کی اطلاع ملتے ہی اس جذبہ بغاوت نے مجھے اکسایا، اور مولانا کی اس ہدایت کو چیلنج کرنے کے لیے مَیں اگلے ہی لمحے مولانا مودودیؒ کے کمرے میں جا پہنچا اور کرسی کھینچ کر اس انداز سے جا بیٹھا کہ جیسے گپ شپ کرنے آیا ہوں۔ اب آپ مولانا کے ظرف کو دیکھیے ، کہ وہ قلم رکھ کر میری طرف متوجہ ہو گئے اور میری باتوں کا جواب دینے لگے ۔ جواب بھی کوئی ہاں، ناں میں نہیں، تفصیلی دیے اور گفتگو میں ایسی دلچسپی لی کہ جیسے خود اس وقت ایسی بے مقصد و بے موضوع گفتگو کے موڈ میں تھے ۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے اُن پر رحم آگیا اور میں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا :” مولانا آپ اپنا کام کریں، میں تو نعیم صاحب کی زبان سے آپ کی ہدایت سن کر ، کہ مجھ تک کوئی نہ پہنچے بھڑک اٹھا تھا۔ بس اب بہت امتحان لے لیا”۔ مَیں نے باہر نکلنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ مولانا نے حسب معمول شگفتگی سے جواب دیا: “اور پاس بھی کردیا”۔ پھر ایک خاص انداز میں فرمایا:” بھئی ایک کمزور آدمی کو کب تک آزماؤ گے”۔ (ترجمان القرآن، اشاعت خاص، اکتوبر ۲۰۰۳، ص۲۲۶)
حکیم شمس الحسن صاحب مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا خاکہ کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ” اپنی مدح و ستایش سننااُن پر بڑا شاق گزرتا تھا۔ کیونکہ اس سے زیادہ تحمل انہیں کسی اور چیز کے لیے نہیں کرنا پڑتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنی مدح سن کر پسینے سے تر ہوجاتے اور شرما جاتے تھے۔ مَیں اُن کی یہ ادا دیکھنے کے لیے اُن کے سامنے اکثر اُن کی تعریف کر گزرتا تھا۔ اللہ معاف فرمائے”۔
“جب دیکھتے کہ کوئی بحث پر اتر آیا ہے تو خاموش ہوجاتے ۔ بات کرنے والے کی بات کبھی کاٹتے نہیں تھے خواہ کیسی ہی غلط کیوں نہ کہہ رہا ہو۔ جب بولنے والا چپ ہوجاتا تو بولنا شروع کرتے۔ اُن کی گفتگو کے دوران جونہی کوئی بول پڑتا تو فوراً چپ ہوجاتے، اُسے بولنے دیتے۔ مَیں نے کبھی اُن کو بھرم اور خشم ناک نہیں دیکھا۔ اُن کی کسی گفتگو میں جھنجھلاہٹ کی جھلک نہیں دیکھی۔ مختصر یہ کہ اُن کے ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ اُن کی صحبت میں رہ کر دل دنیا سے سرد ہوجاتا تھا” ۔ (ترجمان القرآن، اشاعت خاص ، اکتوبر ۲۰۰۳، ص ۲۲۹۔۲۳۰)
باہمی احترام
ایک غلط تاثر مولانا مودودی ؒ کے بارے میں یہ پایا جاتا ہے کہ بزرگ علماء اُن سے متنفر تھے۔ حالانکہ حقیقت حال کچھ اور تھی ۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پروفیسر خورشید احمد رقم طراز ہیں :” ایک مرتبہ کراچی میں مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور (جو مفتی تقی عثمانی صاحب کے والد بزرگوار ہیں) کے ہاں مجھے مولانا مودودیؒ کے ہمراہ جانے کا موقع ملا۔ نماز کا وقت ہو گیا تو مفتی صاحب نے مولانا سے کہا :”آپ امامت کریں”۔مگر مولانا نے اصرار کیا :” نہیں ، مفتی صاحب نماز آپ ہی پڑھائیں”۔ (ترجمان القرآن، اشاعت خاص، اکتوبر ۲۰۰۳، ص ۱۰۹)
در اصل اہل علم حضرات کی روش یہی ہوتی ہے کہ علمی اختلاف کے با وجود ایک دوسرے کے ہمدرد اور احترام کرنے والے ہوتےہیں۔
پابندی وقت
آج ہمارے ہاں ایک عجیب چلن ہوگیا ہے۔ وقت کی پابندی جیسی نعمت عوام سے تو اٹھ ہی گئی ہے۔ اہل علم کے ہاں تو تاخیر ایک روایت بن گئی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد فرماتے ہیں:” اس طرح انہوں نے (مولانا مودودی ؒنے) یہ روایت قائم کی کہ ہر کام اپنے وقت پر ہو۔ انہوں نے جس پروگرام کے لیے وقت دیا ہوتا، اس سے پانچ منٹ پہلے پہنچتے۔ مجھے نہیں یاد کہ ان کی طلب کردہ کوئی میٹنگ تاخیر سے شروع ہوئی ہو، یا وہ کسی شوریٰ، کسی عاملہ، کسی اجتماع یا اجلاس میں تاخیر سے پہنچے ہوں۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر گئے تو وہاں پی ای سی ایچ ایس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہیں پیر الہی بخش کالونی (پی آئی بی کالونی) میں ” ملّا اِزم کیا ہے؟” کے موضوع پر خطاب کرنا تھااور مولانا کو اجتماع گاہ تک لے جانا میرے ذمے تھا۔ ہم بمشکل دو تین منٹ لیٹ پہنچے۔ لیکن میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہاں پہنچنے تک جو آخری دس منٹ گزرے اس پورے دورانیے میں وہ کس اضطراب میں تھے۔ اور اگر مولانا نے زندگی بھر میں مجھے ڈانٹا ہے تو صرف اُس روز۔ جب میں نے ٹریفک جام کا عذر پیش کیا تو کہا:” آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس وقت راستے میں ٹریفک کا مسئلہ ہو سکتا ہے ، اس کا لحاظ رکھتے ہوئے چند منٹ پہلے چلتے یا دوسرا راستہ اختیار کرتے”۔ دوسری طرف جماعت کے لوگ بھی قابل داد ہیں کہ انہوں نے مولانا کا انتظار کیے بغیر اجلاس کی کارروائی شروع کردی، اور ہم اس دوران میں پہنچے۔ گویا وقت کی قدر اور وقت کا استعمال اور وقت کا نظم و ضبط ان کے ہاں کمال درجے کو پہنچا ہوا تھا”۔ (ترجمان القرآن، اشاعت خاص، اکتوبر ۲۰۰۳، ص۹۹)
حصول علم کا جذبہ
ایسی انقلابی اور ہمہ گیر شخصیت کی اٹھان سہولیات اور آسائشوں میں نہیں ہوا کرتی۔ اپنی دلآویز شخصیت کی تعمیر مولانا نے پورے شعور کے ساتھ کی تھی۔ وہ حصول علم کے لیے جن کٹھن مراحل سے گزرے۔ واقعہ یہ ہے کہ بغیر واضح مقصد کے کوئی صغیر سِنی میں اتنی مشقتیں نہیں اٹھا سکتا ۔ عاصم الحداد ؒ اپنی غیر مطبوعہ ڈائری میں لکھتے ہیں:” سید مودودی ؒ کا سفر علم بڑا کٹھن تھا۔ دہلی کے مولانا عبد السلام صاحب سے اونچی سطح کی عربی پڑھی۔ ابتدائی تعلیم پہلے حاصل کرچکے تھے۔ مولانا عبد السلام صاحب کم لوگوں کو پڑھاتے تھے اور اپنے طالب علموں کے لیے مشکل وقت مقرر کرتے۔ مولانا مودودیؒ کے لیے نماز فجر سے قبل کا وقت تھا۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مودودی صاحب جاتے اور آگے سے ارشاد ہوتا:” سید بادشاہ! آج تو طبیعت حاضر نہیں ہے “۔ اور سید مودودیؒ لوٹ جاتے۔ تعلیمی “سلوک” کی ان منزلوں کو طے کرتے ہوئے مولانا عبد السلام سے (مولانا ) مودودی ؒنے عربی و نحو، معقولات اور معانی و بلاغت کی تعلیم حاصل کی۔ علاوہ ازیں ، مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی مرحوم سے درس حدیث لیا۔ مولانا شریف اللہ سے تفسیر بیضاوی، فقہ میں ہدایۃ اور مطوّل پڑھیں”۔ (تذکرہ سید مودودی، جلد اول، ص ۸۵۶)
بذلہ سنجی ، شگفتہ مزاجی
اتنی علمی، عملی، سنجیدہ، باوقار، با رعب، حاضر دماغ، بیدار مغز ونفیس شخصیت میں شگفتہ مزاجی کا پہلو نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ”کراچی کی ایک مجلس میں ایک صاحب نے شکایت کی کہ اخبارات سرکاری خبر تو دیتے ہیں مگر ہماری خبر نہیں دیتے۔ مولانا نے فرمایا:” وہ اُن کی خبر دیتے ہیں، اور ہماری خبر لیتے ہیں”۔ اس پر پوری محفل کشتِ زعفران بن گئی”۔ ( مولانا مودودی ؒ کے لطائف ، ص۱۲)
“۱۹۵۳ ء کے قادیانی فسادات کی عام گرفتاریوں کے بعد جیل کے دو احاطوں میں مولانا مودودیؒ اور اُن کے ساتھی تقسیم اور نظر بند تھے۔ ایک روز کچھ حضرات باقر خاں صاحب کے ہمراہ مولانا مودودیؒ سے ملنے کے لیے اُن کے احاطے میں آئے تو مولانا ؒ نے تواضع کے طور پر اُنہیں چائے پلائی اور چائے پلاتے ہوئے باقر خاں صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :” باقر صاحب، افسوس ہے کہ ہم آپ کے لیے باقر خانی کا انتظام نہیں کر سکے”۔ اس پر محفل میں خوب قہقہہ پڑا”۔ (مولانا مودودیؒ کے لطائف، ص ۱۹)