کیا صرف فوجی عزت مآب ہیں؟

1507

 ملک میں مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کا تمسخر اُڑانا جرم ہوگا۔ حکومتی رکن امجد علی نے 15 ستمبر کے روز اس سلسلے میں مجموعہ تعزیرات 1860 اور مجموعہ فوجداری 1898 میں مزید ترمیم کا بل پیش کردیا ہے۔ بل کے تحت مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کا جان بوجھ کر تمسخر اُڑانا، وقار کو گزند پہچانا یا بدنام کرنا جرم قرار پائے گا اور ایسا کرنے والے کو دو سال تک قید اور 5 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔ خبر کے مطابق اس ترمیم کا مقصد مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز اور گستاخ رویے کا سدِباب کرنا ہے۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 16 ستمبر 2020ء)
وطن عزیز میں فوج اور فوجیوں کو جو ’’تقدیس‘‘ حاصل ہے اس کا دنیا کے کسی ملک میں مشکل ہی سے تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا خبر سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے جرنیل موجودہ ’’تقدیس‘‘ کی سطح پر مطمئن نہیں بلکہ انہیں مزید تقدیس درکار ہے۔ فوج ہو یا فوجی کوئی سول ادارہ ہو یا عام فرد کسی کا ’’تمسخر‘‘ اُڑانا ٹھیک نہیں۔ کسی کے ’’وقار‘‘ کو نقصان پہنچانے اور کسی کو بدنام کرنے کی اجازت بھی کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ مگر مذکورہ بالا بل سے ظاہر ہے کہ اگر ملک میں کوئی شخص سول ادارے یا عام آدمی کا تمسخر اُڑاتا ہے تو یہ کوئی جرم نہیں البتہ فوج یا کسی فوجی کا تمسخر اڑانا، اس کے وقار سے کھیلنا یا اسے بدنام کرنا بُری بات ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مذکورہ بل کے دائرے میں پورے سماج کو سمیٹ لیا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بل کا دائرہ صرف مسلح افواج اور فوجیوں تک محدود رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فوجی آسمانی مخلوق ہیں اور عام شہری اتنے حقیر ہیں کہ ان کا تمسخر بھی اڑایا جاسکتا ہے۔ ان کے وقار کو گزند بھی پہنچائی جاسکتی ہے اور انہیں بدنام بھی کیا جاسکتا ہے۔ مسلح افواج اور فوجی اگر معاشرے اور ریاست کا حصہ ہیں تو انہیں پورے معاشرے سے الگ ہو کر اپنے لیے کسی خصوصی حیثیت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے مسلح افواج، فوجیوں اور عام افراد کے درمیان خلیج پیدا ہوگی۔ زندگی اور وقار کی تقدیس صرف مسلح افواج اور فوجیوں کی ضرورت نہیں یہ ریاست کے ہر باشندے کی ضرورت ہے، اس لیے آئین کی نگاہ میں ہر شہری کی عزت و وقار اہم ہے۔
مذکورہ بل کے حوالے سے یہ اندیشہ بھی پیدا ہوا ہے کہ کہیں ’’تنقید‘‘ اور ’’تمسخر‘‘ کو ہم معنی نہ سمجھ لیا جائے۔ تمسخر ایک منفی رویہ ہے مگر تنقید سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے سوا کوئی بلند نہیں۔ چناں چہ معاشرہ جرنیلوں پر تنقید سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے جس کا انہیں کسی بھی اعتبار سے کوئی حق نہیں تھا۔ جنرل ایوب صرف امریکیوں سے خفیہ رابطے ہی استوار نہیں کیے ہوئے تھے بلکہ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کی سول قیادت ملک کو تباہ کررہی ہے اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص گھر کے پوتڑے امریکیوں کے سامنے دھو رہا ہو وہ کیسے محب وطن ہوسکتا ہے اور وہ کیسے تنقید سے بالاتر ہوسکتا ہے؟ مطلب یہ کہ جنرل ایوب کے مذکورہ اقدام کی ہمیشہ شدید الفاظ میں مذمت کی جائے گی اور انہیں اس حوالے سے قومی مجرم ٹھیرایا جائے گا۔ جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا لگا دیتے مگر انہوں نے اس کے لیے امریکا کی حمایت حاصل کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ کیا امریکا جنرل ایوب کا رشتے دار تھا؟ کیا امریکا پاکستان کا عاشق تھا؟ اس کا خیر خواہ تھا؟ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہینری کسنجر نے صاف کہا ہے کہ امریکا کی دشمنی خطرناک ہے مگر دوستی جان لیوا ہے۔ جنرل ایوب کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں امریکا سے دوستی کی نہیں اس کے جوتے چاٹنے کے کلچر کی بنیاد رکھی۔ ظاہر ہے اس روش پر ہمیشہ تنقید ہوگی اور ایسا کرنا پاکستان کا مفاد ہوگا۔
پاکستان کے جرنیلوں نے صرف امریکا سے دوستی نہیں کی صرف اس کے جوتے چاٹنے کا کلچر پیدا نہیں کیا انہوں نے ہمارے دفاع کو امریکا مرکز بنادیا۔ انہوں نے ہماری خارجہ پالیسی کو امریکا کے تابع کردیا۔ انہوں نے ہماری معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے معاشی اور مالیاتی مغربی اداروں کے سپرد کردی۔ نتیجہ یہ کہ پوری قوم مغرب کی غلام بن گئی۔ جرنیلوں کے مذکورہ بالا اقدامات پاکستان کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہیں، اس کے وقار سے کھیلنے کے مترادف ہیں، اس کو بدنام کرنے کے مترادف ہیں۔ چناں چہ ان پر ہمیشہ تنقید ہوگی اور جرنیلوں کو یہ تنقید برداشت کرنی ہوگی کیوں کہ یہ تنقید ہی ’’حب الوطنی‘‘ ہے، یہ تنقید ہی ملک و قوم سے محبت ہے، یہ تنقید ہی ملک و قوم کی عزت ہے، یہ تنقید ہی ملک کا وقار ہے، اس تنقید کو جو روکے گا جو ناپسند کرے گا وہ ملک و قوم کا غدار ہوگا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے سلسلے میں جرنیلوں کا کوئی کردار ہی نہیں تھا اس لیے کہ اس وقت کوئی فوج ہی نہیں تھی مگر اب جرنیل ملک و قوم کے ’’گاڈ فادر‘‘ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم نے ایک بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے پوچھا تھا کہ جنرل صاحب بتادیجیے ملک فوج کے لیے ہے یا فوج ملک کے لیے۔ کہنے لگے تمہارے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ جنرل حمید گل چاہتے تو کہہ دیتے کہ فوج ملک کے لیے ہے مگر وہ یہ کہتے تو عملی حقیقت کو جھٹلاتے اور انہیں مزید سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ چاہتے تو کہہ دیتے کہ ملک فوج کے لیے ہے مگر اس صورت میں بھی انہیں مزید سوالات کو جھیلنا پڑتا۔ چناں چہ انہوں نے خاموش رہنا پسند کیا۔ لیکن ان کی خاموشی سے اتنا تو ظاہر ہو ہی گیا کہ جرنیلوں کو ملک کا گاڈ فادر بننے کا کوئی حق نہیں۔ چناں چہ ان کے اس رویے پر ہمیشہ تنقید ہوگی اور اس تنقید کو روکنا ملک و قوم کے مفاد سے غداری کے مترادف ہوگا۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ملک کے آئین اور جمہوری نظام میں کبھی مارشل لا کی گنجائش نہیں رہی مگر ہمارے جرنیلوں نے کبھی آئین اور جمہوری روایت کو اہمیت نہیں دی۔ جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک مارشل لا لگتے رہے۔ اس وقت ملک میں بلاشبہ مارشل لا نہیں ہے مگر بدقسمتی سے عمران خان جرنیلوں کی بالادستی کا جمہوری چہرہ بنے ہوئے ہیں۔ جرنیلوں کے اس رویے پر بھی ہمیشہ تنقید ہوگی اور اس تنقید کو روکنے والا اور اس پر ناراض ہونے والا ملک و قوم کا وفادار نہیں ہوگا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک جنرل یحییٰ کے زمانے میں ٹوٹا۔ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے سامنے ذلت آمیز انداز میں ہتھیار ڈالے۔ ہم نے تقریباً لڑے بغیر آدھا پاکستان بھارت کے حوالے کردیا۔ میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں مشرقی پاکستان کے حالات کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک جنرل یحییٰ اور ان کے رفقا کی غلطیوں سے ٹوٹا۔ چناں چہ جنرل یحییٰ، جنرل نیازی اور ان تمام لوگوں پر ہمیشہ تنقید ہوگی جن کو حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں سقوط ڈھاکا کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ ایسی تنقید کو روکنا ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہوگا اس لیے کہ جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں ان کا کوئی حال اور کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عزت ڈنڈے اور قانون سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ عزت فکر و عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا فکر و عمل درست ہو تو کوئی اس پر انگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ انسان کا فکر و عمل درست نہ ہو تو کوئی اس کی عزت نہیں کرسکتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب معاشرے کو ڈنڈے کے زور سے خاموش کیا جاتا ہے تو عوام کے دلوں میں زیادہ غبار پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں توہین رسالت اور توہین صحابہ کی وارداتیں ہوتی ہیں اور وارداتیں کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ملک کا سیکولر اور لبرل طبقہ ملک کے نظریاتی تشخص کی دھجیاں اُڑاتا رہتا ہے، اسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ملک میں اقبال اور قائد اعظم پر حملے ہوتے ہیں اور ریاست ان کا دفاع کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ان تمام حوالوں سے بھی قانون سازی ہوجاتی اور ملک کے عوام کو بھی ’’عزت مآب‘‘ بنادیا گیا ہوتا تو پھر مسلح افواج اور ان کے اہلکاروں کے لیے قانون بنانے کی منطق کا جواز خود بخود پیدا ہوجاتا۔