نواز شریف نے نیا ’’کٹا‘‘ کھول دیا

844

ہماری سیاست بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے تک مریم نواز صاحبہ اے پی سی میں شرکت سے انکاری تھیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ لندن میں مقیم اپنے ابا جان سے مشورے کے بعد ہی کیا ہوگا۔ ہم نے اس پر کالم بھی لکھ مارا لیکن کالم جس دن چھپا اُس دن ان کا فیصلہ تبدیل ہوچکا تھا اور وہ بڑے طمطراق سے اے پی سی میں شریک ہورہی تھیں۔ فیصلے میں تبدیلی کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے ابا جان میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے اے پی سی سے خطاب کی دعوت قبول کرلی تھی اور مریم صاحبہ کانفرنس میں بیٹھ کر یہ خطاب سننا چاہتی تھیں۔ میاں صاحب کے خطاب کا اعلان ہوا تو سرکاری حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ بیک وقت کئی بھونپو چیخنے لگے کہ ایک اشتہاری مجرم کو خطاب کرنے اور اسے نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن پھر سرکاری سیاست نے بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور ’’اشتہاری مجرم‘‘ کا خطاب نشر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ میاں صاحب کے خطاب نے کڑا کے نکال دیے اور مقتدرہ پر واضح کردیا کہ ان کی لڑائی کٹھ پتلی سے نہیں کٹھ پتلی کا تماشا کرنے والوں سے ہے۔ ان کے خطاب کا فائدہ اپوزیشن کو ہوا یا نہیں، عمران خان ضرور اس سے مستفید ہوئے اور ان کا حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کا بیانیہ اور مضبوط ہوگیا۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کی اے پی سی نے حکومت کی چُولیں ہلانے کے بجائے انہیں اور جمادیا ہے۔ عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ اپنی جگہ، وہ موجودہ پانچ سال پورے کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن بے شک تحریک چلائے یا دھرنا دے، حکومت کو اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتی کیوں کہ فوج اس کے ساتھ ہے۔ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا کہ عمران خان فوج کے بل پر حکومت کررہے ہیں۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کو بھی فوج ہی لائی تھی۔ میاں صاحب ہمیشہ فوج کے پسندیدہ سیاستدان رہے۔ یہ تو اب اقتدار سے محرومی کے بعد ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف کردار سامنے آیا ہے اور وہ اقتدار سے بے دخلی کا ذمے دار فوج کو قرار دے رہے ہیں
ورنہ ایک زمانہ تھا کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے فوج کا کلمہ پڑھتے تھے اور انہیں پروموٹ کرنے والے آرمی چیف نے تو اپنی زندگی بھی انہیں لگ جانے کی دُعا دی تھی۔ شیخ رشید سچ کہتے ہیں کہ بیش تر سیاستدانوں کی پنیری جی ایچ کیو کے گملوں میں لگائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو فوجی اسٹائل میں حکومت کرتے ہیں اور جمہوریت ان کے قریب نہیں پھٹک پاتی۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا رہا ہے اور اب عمران خان بھی یہی کچھ کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں لیکن حکومت وہ بالکل نواز شریف اسٹائل میں کررہے ہیں۔ پھر گلہ کیسا! جو بویا ہے وہی کاٹا جارہا ہے۔
لیجیے صاحب بات اے پی سی سے چلی تھی بہت دور نکل گئی۔ اے پی سی درحقیقت حضرت مولانا کا آئیڈیا تھا وہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور برائے بیت دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان سے کچھ وعدے وعید لینا چاہتے تھے لیکن دونوں بڑی جماعتیں آمادہ ہی نہیں ہورہی تھیں۔ جب آمادہ ہوئیں تو پیپلز پارٹی نے اے پی سی کی میزبانی قبول کرکے اسے ہائی جیک کرلیا اور حضرت مولانا کی ایک نہ چلنے دی۔ حتیٰ کہ ان کی تقریر کو بھی سنسر کردیا، اس طرح حضرت مولانا کی تقریر نشر ہونے سے رہ گئی اور لوگوں کو پتا ہی نہ چلا کہ حضرت مولانا اے پی سی سے کیا کام لینا چاہتے تھے۔ اے پی سی نے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق مطالبات تو بہت سے کیے لیکن ان کی حیثیت ہوائی فائرنگ سے زیادہ نہ تھی۔ مثلاً عمران خان استعفا دیں، نئے انتخابات کرائے جائیں، انتخابی اصلاحات کی جائیں، احتساب کا نیا قانون بنایا جائے، ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی ان پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ حضرت مولانا کی رائے تھی کہ اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت گھٹنے ٹیک دے اور عمران خان مستعفی ہو کر بنی گالہ چلے جائیں تو پوری اپوزیشن پارلیمنٹ سے باہر آجائے، یعنی عمران خان کے استعفے سے پہلے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے استعفے ضروری ہیں اس طرح پورا نظام مفلوج ہوجائے گا اور نئے انتخابات کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ لیکن حضرت مولانا کی اس رائے سے کسی نے بھی اتفاق نہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اسمبلی سے استعفا ہمارا آخری آپشن ہوگا لیکن انہوں نے یہ بتانے کی زحمت نہ کی کہ حکومت کے خلاف ان کا پہلا آپشن کیا ہے۔ اے پی سی میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی بات بھی کی گئی ہے۔ یہ تحریک کس نوعیت کی ہوگی اور اس کا حکومت کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟۔ یہ باتیں ابھی صیغہ راز میں ہیں۔
اسلام آباد سے نمائندہ جسارت نے اطلاع دی ہے کہ اے پی سی میں میاں نواز شریف کی تقریر سے مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے وزیراعظم عمران خان اور دیگر پارلیمانی رہنمائوں سے ملاقات کرکے ان پر واضح کیا ہے کہ فوج کا سیاست اور ملک کو درپیش سیاسی بحران سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ آئین کے مطابق انتظامیہ کی مدد کرنے کی پابند ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اے پی سی میں نیا کٹا کھول کر فوج، حکومت اور اپوزیشن سب کو اسے پکڑنے پر لگادیا ہے اور حکومت کے خلاف اپوزیشن کی ممکنہ تحریک پس منظر میں چلی گئی ہے۔ ایک طرف فوجی قیادت صفائی پیش کررہی ہے، دوسری طرف عمران خان اس تقریر کے خفیہ گوشے بے نقاب کررہے ہیں اور تیسری طرف اپوزیشن لیڈر مقتدرہ کو بالواسطہ طور پر باور کرانے میں مصروف ہین کہ ان کا اس تقریر سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں اور بس۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف بھی مشکل میں پڑ گئے ہیں کہ بھائی جان نے یہ کیا کہہ دیا کہ وہ تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کررہے تھے۔ دیکھیے تقریر کا یہ ’’کٹا‘‘ اب کس کے قابو میں آتا ہے۔