آزادی نہیں، تحفظ چاہیے

255

ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی۔ ہم لے کے رہیں گے آزادی۔ یہ میرے جملے نہیں ہیں۔ یہ تو ایک ظالم شہزادی کے نعرے ہیں۔ یہ تو وہ نعرے ہیں جو خواتین کا ایک خاص طبقہ سڑک پر کھڑے ہو کر اپنے ہی گھر والوں سے مانگ رہا ہے۔ اپنے ہی باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے سے آزادی مانگ رہی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو اپنے ہی گھر والوں کو کہتی ہیں کہ ہم تم سے لے کے رہیں گے آزادی۔ میں نہیں جانتی کہ یہ حوا کی بیٹیاں آزاد ہوکر کس جگہ جائیں گی۔ کیا کریں گی؟ کیا کھائیں گی؟ کیسے اسپتال جائیں گی اور اس کا بِل ادا کریں گی؟ اِن کا اگلا لائحہ عمل کیا ہے؟ میں اس بارے میں نہیں جانتی، مگر مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ بعض خواتین کے ساتھ اْن کے شوہر یا والد، بھائی وغیرہ بھی کھڑے ہو کر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ وہ ان سے آزادی مانگ رہی ہیں، اور وہ ان کے لیے آزادی مانگ رہے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کس لابی نے ان کو شاہراہِ عام پر لا کر کھڑا کیا اور ان کے ہاتھوں میں بینر پکڑا دیے؟ مجھے اس بارے میں نہیں معلوم۔ مگر مجھے حیرت اس پر ہے کہ یہ پڑھی لکھی لڑکیاں جنہوں نے دس سال میٹرک میں، دو سال انٹر میں اور بعض نے اس کے بعد کا وقت بھی تعلیم میں گزارا، آخر ان کی اس تعلیم نے انہیں کیا شعور دیا؟ انہوں نے اتنی تعلیم حاصل کر کے کیا سیکھا؟ کوئی بزنس سیکھا، کوئی ٹیچنگ سیکھی، کوئی ڈاکٹریٹ سیکھی، کوئی اور ہنر سیکھا؟ اتنے سال ان کی پرورش کون کرتا رہا؟ کوئی خلائی مخلوق ان کے اخراجات، ان کی فرمائشیں آکر پوری کرتی تھی یا اْن کے اپنے گھر کے لوگوں نے ان کے لیے خون پسینہ ایک کر کے قربانی دی۔
باپ سے شروع کریں تو بچپن سے بلوغت تک اپنی آغوش میں رکھنے والے باپ کو بھول گئیں۔ بھائی سے شروع کریں تو اپنی بہن کی حفاظت کرنے والے کو یکسر بھلا دیا۔ شوہر سے شروع کریں تو جو پورا دن تپتی دھوپ میں اپنے بیوی بچوں کے لیے طرح طرح کے لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر گھر پہنچتا ہے، دو پیسے کما کر لاتا ہے، اسے بھول گئیں؟ میری پیاری بہنوں کے لیے سوچنے کا بڑا میدان ہے کہ ہم کہاں کھڑی ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہیے تھا۔ کہیں پر اگر ان رشتوں کی طرف سے خواتین کو تکلیف دی جارہی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام خواتین اپنے بھائی، شوہر اور باپ کے خلاف نعرے لگانے لگ جائیں۔ مرد حضرات بھی خواتین کے جائز حقوق کا خیال رکھیں اور خواتین بھی اپنے گھر کے مردوں کی عزت کا خیال رکھیں۔ اگر آپ روٹی گرم کرکے نہیں دیں گی تو یہ مرد حضرات کسی اور سے روٹی گرم کروا کے کھا لیں گے۔ نقصان صرف آپ کا اپنا ہی ہوگا۔ آپ کے لڑائی جھگڑے میں آپ کے بچے پریشان ہوں گے، اور آپ اپنے بچوں کو اس معاشرے کا بہترین فرد بنانے میں ناکام ہو جائیں گی۔ کل کو آپ کی بچی جس گھر میں جائے گی تو ان کے گھر میں بھی لڑائی جھگڑے ہی ہوں گے۔
بچپن میں ایک کہانی سنتی تھی۔ بڑی پیاری کہانی ہے۔ آپ کو بھی سناتی ہوں کہ شاید کوئی نتیجہ خیز بات برآمد ہوجائے۔ کسی جگہ بکریوں کا بڑا ریوڑ آباد تھا جس کے قریب جنگل تھا اور اس جنگل میں بھیڑیے رہتے تھے۔ بھیڑیوں نے کہا کہ چلو! بکریوں پر حملہ کر کے موجیں کرتے ہیں۔ چناں چہ حملے کے ارادے سے آئے تو سب بکریوں نے مل کر وہ سبق سکھایا کہ سارے بھیڑیے بھاگ گئے۔ بھیڑیوں نے میٹنگ بلائی اور اپنی شکست کے اسباب پر غور شروع کر دیا۔ ایک بھیڑیے نے کہا کہ جنابِ والا! ان کے اتحاد کے آگے ہماری چلنے والی نہیں ہے۔ ایسا کریں کہ پہلے ان کا اتحاد توڑیں، پھر موجیں کریں گے۔ مشورہ ہونے لگا کہ اتحاد کیسے توڑا جائے؟ ایک بھیڑیے نے کہا کہ جنابِ والا! میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ وہ یہ کہ ہم بکریوں کی آزادی کی بات کریں کہ یہ سب ریوڑ میں قید ہیں، ان کو آزاد کیا جائے، ان کے حقوق دیے جائیں، ان کو زمانے سے روشناس کرایاجائے۔ سارے بھیڑیوں کو یہ تجویز بڑی اچھی لگی۔ اور بڑے بڑے بینر بنا کر بھیڑیے نکل آئے کہ بکریوں کو آزاد کرو۔ بکریوں کی آزادی تک احتجاج جاری رہے گا۔ منجانب خیر خواہان بکری بھیڑیا جماعت۔ بکریوں کو یہ نعرے بھانے لگے۔
چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ یہ تو اتنے اچھے ہیں کہ ہماری آزادی کے لیے اتنا بڑا احتجاج کر رہے ہیں۔ بھلا ان کو کیا پڑی ہے ہمارے حقوق کی بات کرنے کی؟ غرض ان پْرفریب نعروں کے جھانسے میں آگئیں۔ بڑی بکری نے بہت سمجھایا کہ دیکھو! نعروں کو مت دیکھو، اس کے پیچھے چھپے چہروں کو دیکھو، وہ تمہارے دشمن ہیں، وفادار دوست نہیں۔ مگر جوان خون ماننے والا تو نہیں تھا، نہ مانا۔ اور بھیڑیوں کے ساتھ نعروں لگاتے ہوئے یہ بکریاں چلی گئیں۔ جب بھیڑیوں نے دیکھا کہ بکریاں تو بڑی تعداد میں آ رہی ہیں تو اْن کی رال ٹپکنے لگ گئی اور جوش سے آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگ گئے۔ یہاں تک کہ بکریاں جب بالکل قریب ہوگئیں تو اپنے اصلی روپ میں آکر اْن پر حملہ کر دیا۔ جو بکریاں بات مان کر نہیں گئی تھیں بلکہ دور سے دیکھ رہی تھیں، انہوں نے شکر ادا کیا کہ بڑوں کی بات ماننے سے ان کی عزّت اور زندگی بچ گئی۔
کہانی تو ختم ہوگئی، اور ہر کوئی اپنی ذہنی بساط کے مطابق نتیجہ بھی نکال لے گا۔ ایک نتیجہ ہم بھی آپ کو دیتے ہیں، اگر اتفاق کریں تو اپنی بہنوں کے لیے اس چیز کی آواز بلند کریں۔ وہ یہ کہ ہماری بہنوں کو آزادی نہیں، تحفّظ چاہیے۔ جہاں وہ کام کریں، جہاں وہ سفر کریں، جہاں وہ رہیں، انہیں حفاظت کی گارنٹی دی جائے۔ ایسے قوانین فی الفور نافذ کیے جائیں جو خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوں۔ اور اگر کوئی اس قانون کو توڑے ، اپنے ہاتھ میں لے تو اوپر سے لے کر نیچے تک تمام قانونی ادارے حرکت میں آجائیں۔