شاہ فیصل بن عبدالعزیزسعودی عرب کے ایک تاریخی حکمران

1274

شاہ فیصل صفر 1324ھ مطابق اپریل 1906ء کو پیدا ہوئے۔(- 1395 1384ھ) مطابق 1964ء کو بادشاہ بنے اور 1975ء تک حکمراں رہے۔
شہزادہ فیصل مکتب میں غیر منظم طریقے سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا، قرآن کریم حفظ کیا، حدیث شریف کا علم حاصل کیا۔ اُس زمانے میں نجد میں روایتی تعلیم کا یہی طریقہ رائج تھا تاہم شہزادہ فیصل نے ایک اور امتیاز حاصل کیا جو ان کے معاصرین میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے نانا شیخ عبداللہ بن عبداللطیف کے ہاتھوں بحث مباحثہ کی صلاحیت اور متکلم کو قائل کرنے کی مہارت حاصل کی۔
شہزادہ فیصل نے گھڑ سواری ، تیر اندازی اور نشانہ بازی ایسے لوگوں سے سیکھی جن کا انتخاب اس مقصد کیلئے ان کے والد شاہ عبدالعزیز نے کیا تھا۔
شہزادہ فیصل اپنے نانا کے گھر میں مقیم رہے ۔ پھر وہ 1337 ھ مطابق 1919 ء کو پہلی بار تعلیم حاصل کرنے کیلئے یورپ گئے۔ وہاں سے واپسی پر انہوں نے اپنے آبائو اجداد کے گھر میں قیام کیا۔ شاہ عبدالعزیز کی بیگم شہزادی حصہ السدیری نے ان کی دیکھ بھال کی۔ شہزادہ حصہ السدیری شاہ فیصل کے بھائی شہزادہ فہد کی والدہ تھیں(یہ آگے چل کر بادشاہ بنے) ۔شہزادہ فیصل نے اپنے باپ کے گھر واپس ہوکر سیاسی ماحول اور جنگی سرگرمی کی فضاء میں زندگی گزاری۔ انہوں نے امن و جنگ کے عالم میں لوگوں سے نمٹنے کے طور طریقے سیکھے۔ انہوں نے اپنے والد سے ضبط و تحمل اور صبر و احتیاط کے گُرحاصل کئے۔ شاہ عبدالعزیز نے اپنے بیٹے فیصل میں بہت کم عمری کے اندر لیاقت ، فراست اور ذہانت کی علامتیں پڑھ لی تھیں۔ ان کے نانا شیخ عبداللہ بن عبداللطیف نے بھی ان کی استعداد محسوس کرلی تھی۔ آنے والے وقت نے ان دونوں بزرگوں کے احساس و ادراک کو سچ ثابت کردیا۔
شاہ عبدالعزیز نے اپنے بیٹے شہزادہ فیصل کو بہت کم عمری میں سیاست میں داخل کردیا۔ انہوں نے پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر برطانیہ اور فرانس کے دورے پر انہیں بھیجا۔ اس وقت ان کی عمر 13 برس تھی ۔ شاہ عبدالعزیز نے مسئلہ فلسطین سے متعلق ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے انہیں لندن کانفرنس کیلئے سعودی وفد کا قائد بناکر روانہ کیا تھا۔
شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز کو 1922 ء کے دوران عسیر میں کشیدہ صورتحال کو قابو کرنے کیلئے سعودی افواج کا کمانڈر تعینات کیا تھا۔ پھر 1925 ء میں سعودی فوج ان کی قیادت میں حجاز کی طرف روانہ ہوئی اور حجاز پر کنٹرول حاصل کیا۔
1926 ء کے دوران شاہ عبدالعزیز نے انہیں اپنا نائب اعلیٰ مقرر کیا۔ پھر 1927 ء میں انہیں مجلس شوریٰ کا صدر اور 1932 ء میں وزیر خارجہ متعین کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 1934 ء کے دوران انہوں نے سعودی یمن جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا۔
شاہ عبدالعزیز نے 9 اکتوبر 1953 ء کو انہیں سعودی کابینہ کے سربراہ کا نائب متعین کیا۔ انہوں نے شہزادہ فیصل کو وزیر خارجہ کے عہدے پر بھی برقرار رکھاجبکہ شہزادہ سعود کو وزیر اعظم مقرر کیا۔
شہزادہ فیصل کی زندگی سیاسی اور فکری کارناموں سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے ملکی اور عالمی سطحوں پر ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جنہیں رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
شاہ فیصل ؒ کا عہد صحیح معنو ں میں ٹھوس سائنٹیفک منصوبہ بندی کا دور کہا جاسکتا ہے۔ انہی کے زمانے میں زندگی کے ڈھانچوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور معاشرے کے مختلف شعبوں کو ٹھوس بنیادوں پر قائم کرنے کیلئے منصوبہ بندی شروع کی گئی۔ سوچ یہ تھی کہ سعودی عرب اپنے اطراف کے ملکوں میں رونما ہونے والی ترقی کی ہم رکابی کرے۔ شاہ فیصل نے ریاستی اقتدار اور ریاستی امور کو چلانے کے سلسلے میں اپنے لئے کچھ اصول مقرر کئے جن سے وہ سرمو منحرف نہیں ہوتے تھے۔
شاہ فیصل فطری طور پر اچھے انسان تھے ۔ منکسر المزاج تھے۔ تواضع پسند کرتے تھے۔ پاکیزہ طبیعت کے مالک تھے۔ استقامت کا شیوا اختیار کئے ہوئے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں پرہیز گار اور پابندِ عمل مسلمان تھے۔ اسلامی عقائد سے پوری قوت کے ساتھ وابستہ تھے۔ انہوں نے مملکت سعودی عرب کو اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے جدید بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور اس حوالے سے وہ سرخرو ہوئے۔
شاہ فیصل کی توجہات کا محور عوام تھے۔ وہ عوام میں خوشحالی لانے کیلئے اپنے فرض کا گہرا احساس رکھتے تھے۔
شاہ فیصل اپنے ورثے اور وطن کی روایتوں پر نازاں ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ رکھتے تھے کہ یہ سب کچھ عصری ٹیکنالوجی اور دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے استفادہ کی راہ میں حائل نہیں۔ انہوں نے اقتصادی ترقی اور سماجی معیار کو بلند کرنے اور مملکت کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کا عزم ظاہر کیا۔ وہ مملکت کو جدید تر اور عظیم تر بنانے کیلئے کوشاں تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے ـتھے کہ ہمیں ترقی یافتہ دنیا کی ہمرکابی کرنا چاہیئے اور اس میں شایان شان رتبہ حاصل کرنا چاہیئے۔
شاہ فیصل نے اپنی لیاقت اور اپنی آگہی کی بدولت بہت سارے اصلاحی اقدامات پر کئے جانے والے اعتراضات کو صبر و تحمل سے کام لے کر نظرانداز کیا۔ شاہ فیصل اس بات پر ہمیشہ زور دیتے رہے کہ اسلام ہی ملک کا آئین رہے گا اور ترقی کا مطلب ماضی اور بزرگوں کے عظیم الشان ورثے سے قطع تعلقی نہیں ۔
شاہ فیصل کو اس بات کا ادراک تھا کہ مملکت کی ترقی و خوشحالی افرادی قوت کے فروغ کے بغیر ممکن نہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ علم ہی اصل طاقت ہے ۔ اسی بنیاد پر انہوں نے تعلیم کو اپنے مقصد کے حصول کیلئے نکتۂ آغاز کے طور پر اختیار کیا۔
اعتراضات کے باوجود انہوں نے پہلا گرلز اسکول کھلوایا ۔ انہو ںنے تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے نیز جامعات کے قیام کا دائرہ وسیع کرنے اور اعلیٰ تعلیم کیلئے سعودی طلبہ کو بیرون مملکت بھیجنے کے حوالے سے اپنے بھائی شاہ سعود کے کارواں کو آگے بڑھایا۔
شاہ فیصل کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم تھی کہ تجدید کا سفر طویل بھی ہے اور مشکل بھی تاہم یہ اہم بھی ہے او رضروری بھی البتہ اس پُرمشقت سفر کی شروعات ہی میں خیرو برکت ہوگی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ :ہم پہلا قدم آگے بڑھا رہے ہیں ، ہمیں رفتہ رفتہ سفر جاری رکھنا ہوگا کیونکہ کوئی بھی شخص 24 گھنٹے کے اندر اندرمعجزاتی کام نہیں کرسکتا۔
انہوں نے سماجی تبدیلی کی بنیادیں استوار کیں۔ انہوں نے مملکت کو عظیم الشان اقتصادی استحکام بخشا ۔انہوں نے اسلامی تعاون باہمی کے ذریعہ عرب اور برادر مسلم ممالک کے درمیان رشتوں کو مستحکم کیا۔ شاہ فیصل رحمتہ اللہ علیہ کے عہد میں پہلے ترقیاتی منصوبے کا بڑا حصہ پورا ہوا۔ انکی وفات1395ھ مطابق 1975ء کو ہوئی۔