اسلام آباد کا ریوینیو کراچی کے برابر کیسے آگیا،رپورٹ مسترد کرتے ہیں،آغا شہاب

307

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے تجزیاتی ٹیکس ڈائریکٹری 2018 میں انکشاف کیے گئے شماریاتی اعدادوشمار پر یکسر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے حال ہی میں انکم ٹیکس کی بنیاد پر تجزیاتی ٹیکس ڈائریکٹری 2018 جاری کی تھی جس میں اس نے کچھ دعوے کیے تھے جو جزوی معلومات پر مبنی تھے جس سے مختلف شہروں سے انکم ٹیکس وصولی کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوا ہے جبکہ کچھ اہم معلومات کو پس پردہ ڈال دیا گیا جس کے ذریعے کوئی بھی اس ڈیٹا کی تصدیق کرسکتا تھا۔صدر کے سی سی آئی نے کہا کیا کہ اس رپورٹ میں کراچی سے انکم ٹیکس کی وصولی 209 ارب روپے بتائی گئی ہے جبکہ ضلعی لحاظ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کراچی کی حصہ داری 186.3 ارب روپے ہے جس میں سے کراچی کا ضلع وسطی 9.06 ارب روپے، ضلع شرقی34.09 ارب روپے، ضلع جنوبی 114.23 ارب روپے اور ضلع غربی 28.89 ارب روپے کا حصہ دار ہے جو واضح طور پر23ارب روپے کے تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ بھی واضح نہیں کہ کراچی کے مجموعی طور پر 209 ارب روپے حصے میں ضلعی لحاظ سے دیئے گئے اعدادوشمار شامل ہیں یا نہیں۔ انکم ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار میں اس بد نظمی نے کاروباری حلقوں میں شدید شک و شبہات پیدا کردیے ہیں جو اسے کراچی کے خلاف ایک اور سازش قرار دے رہے ہیں۔اسی طرح انہوں نے نشاندہی کی کہ صوبے کے لحاظ سے حصہ داری صرف فیصد کی صورت میں سامنے آئی ہے اور دعوؤں کی توثیق کرنے کے لیے دستاویز میں کہیں بھی مجموعی مالیت ظاہر نہیں کی گئی۔یہاں تک کہ بڑی مارکیٹوں سے انکم ٹیکس وصولی کے اعداد شمار کو عیاں کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کی گولڈ مارک، کھڈا مارکیٹ، ملیر، کورنگی، بنارس اور بحریہ ٹاؤن سمیت کئی اہم مارکیٹوں کو ان اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں کیا گیا جس نے غلط تاثر مل رہا ہے کہ دوسرے شہروں کے مقابلے میں کراچی سے ٹیکس وصولی کم ہے۔صدر کے سی سی آئی نے مزید کہا کہ شہروں کے منتخب کردہ مارکیٹوں کے اعداد و شمار صرف 25.7 فیصد فائلرز پر مبنی ہے یعنی 1,606,424غیر تنخواہ دار افراد اور اے اوپی فائلرز میں سے صرف413,859فائلرز کی تفصیلات کی بنیاد پر ڈیٹا تشکیل دیا گیا ہے ۔