سیاسی مصلحتوں کی شکارکمزور تفتیش نے ایم کیوایم کو بچالیا

412

کراچی (رپورٹ خالد مخدومی )بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کیس کے فیصلے نے پاکستان کے تفتیشی نظام کی مکمل ناکامی ثابت کردی،پراسکیوشن پراسرار طور پر عدالت کے سامنے 264افرادکو زندہ جلانے کاحکم دینے والوں کے نام نہیں لائی، مہروں کو سزا دلوا کر معاملہ ختم کرانے اور متحدہ کو فیس سیونگ کاکا اہتمام کیا گیا، متحدہ کے معاملات سے واقف حلقے ایک سیکٹر انچارج کی جانب سے اپنے طور پر 25کڑور روپے بھتے کی طلبی اور عدم ادائیگی کو خارج از امکان قرار دے رہے ہیں ،مفرور قرار دیے جانے والے حمادصدیقی بھی اعلی قیادت کے حکم کے بغیر اتنی بڑی کارروائی نہیںکرسکتے تھے ، بلدیہ فیکٹری آتشزدگی مقدمے میں آج جاری ہونے والے عدالتی فیصلے نے یہ بات تو واضح کردی کہ بلدیہ فیکٹری میںآتشزدگی ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک264افراد کو زندہ جلائے جانے ایک المناک سانحہ اور پاکستان کی تاریخ میں اجتماعی قتل کا سب سے بڑا واقعہ تھا، عدالت کی جانب سے 264افراد کو زندہ جلائے جانے میں براہ راست ملوث 2ملزمان متحدہ قومی موومنٹ کے سیکٹرانچارج رحمان بھولااورزبیرچریاکو سزائے موت اور 4شریک ملزمان کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید سنائی گئی،دوسری طرف شہری اور قانونی حلقوں کے مطابق اس فیصلہ نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ پاکستان کا تفتیشی نظام مکمل طور پر نااہل، ناکام اور سیاسی مصلحتوں کا شکار اور اپنی موت آپ مر چکا ہے ، بلدیہ آتشزدگی کیس میں استغاثہ نے حیرت انگیز طور پر تفتیش کا دائرہ انتہائی محدود رکھااور عدالت کے سامنے صرف وہ شواہد رکھے جن سے یہ ثابت ہو کہ فیکٹری مالکان سے بھتہ مانگنے میں صرف پانچ چھے افراد ملوث تھے ا ور ان کو سز ا دلوا کر معاملہ ختم کروایا جاسکے ، دوسری طرف شہر کے معاملات سے باخبر حلقوں کے مطابق بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کے معاملے کو پہلے دن ہی سے تفتیش انتہائی کمزور اور نمائشی طور پر کی گئی اور اس کوحادثہ قرار دے کر ا س کا زمہ دار فیکٹری مالکان کو قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی جب کہ اس وقت بھی کراچی کے بعض صحافتی حلقے معاملے کو بھتہ کی عدم ادائیگی کا سے منسلک بتارہے تھے6فروری 2015 ء میں متحدہ کے ایک گرفتارکارکن رضوان قریشی کے بیان کے صورتحال تبدیل ہوئی اورمعاملے کی ازسرنو تفتیش شروع کی گئی تاہم منگل کوانسداد دہشت گردی کی عدالت سے سامنے والے فیصلے نے پاکستان کے تفتیشی اداروں اور ان کے افسران کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ، قانونی حلقوںکے مطابق پراسکیوشن نے پراسرار طور پر اس بات کی تفتیش نہیں کی کہ آیا رحمان بھولا اور زبیر چریا فیکٹری مالکان سے ازخود 25کڑور روپے بھتہ طلب کرسکتے اور بھتے کی عدم ادائیگی پر فیکٹری کونذر آتش کرسکتے تھے ،اگر ان ملزمان نے متحدہ کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کا نام لیاتھا اور حماد صدیقی ہاتھ نہ آیا تو تفتیشی اداروں کی جانب سے اس بات کی تفتیش کیوں نہیںکی گئی کہ حماد صدیقی نے کس کی ہدایت پر فیکٹری مالکان سے بھتہ طلب کیا،متحدہ قومی موومنٹ معاملات سے باخبر حلقوں کے مطابق متحدہ میں بھتے کی وصولی کا ایک مضبوط نظام موجود تھااور اعلی قیادت کے علم میں لائے بغیر اتنی بڑی کارورائی کا حماد صدیقی سمیت کوئی بھی تصور تک نہیں کرسکتا،مگر پراسرار طور پر پولیس اورحساس اداروں کے افسران پر مشتمل مشترکہ تفتیشی ٹیم نے تفیش کو انتہائی محدود رکھا اور بلدیہ فیکٹری آتشزدگی میںصر ف مہروںکو سزا دلانے تک محدود رکھا۔دوسری طرف بعض ذرائع کے مطابق استغاثہ نے عدالت میں بعض مقتدر قوتوں کی جانب سے ملنے والی ہدایت کے بعد اپنے کیس کو کمزور طور پرپیش کیااور متحدہ کے ان رہنماوںکے نام عدالت کے سامنے نہیں رکھے جو دوران تفتیش سامنے آئے تھے اور وہ فیکٹری مالکان سے بھتے کی طلبی اور عدم ادائیگی پر نذر آتش کرنے کا حکم دینے والوں میں شامل تھے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ یہ فیصلہ متحدہ کو فیس سیونگ کرنے کاموقع اور ان کا وجود برقرار رکھنے کے لیے کیاگیا ۔