سانحہ بلدیہ فیکٹری، متحدہ کے2 کارکنان کو سزائے موت، رؤف صدیقی بری

652

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں 250 سے زائد افراد کو زندہ جلانے کے کیس میں ایم کیوایم کے کارکنان رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنا دی جب کہ متحدہ رہنما رؤف صدیقی کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا۔

ادیب خانم،علی حسن قادری اور عبدالستار کو بھی بری کر دیا گیا جب کہ دیگر 4 ملزمان کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔عدالت نے 400 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔

تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ سنا دیا،ملزمان رحمان بولا اور زبیر چریا کو عدالت پہنچایا گیااورملزمان کے وکیل بھی  کمرہ عدالت میں موجود رہے جبکہ ایم کیوایم کےرؤف صدیقی بھی عدالت پہنچے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، عدالت نے سوال کیا تھا عدالت کوبتایاجائےکتنی لاشوں کاپوسٹ مارٹم ہوا؟ تفیشی افسر نے بتایا 259لاشوں کاپوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، کچھ انسانی عضاالگ تھے ان کا بھی پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

یاد رہے بلدیہ فیکٹری کیس رحمان بھولا، زبیرچریااوردیگرملزمان نامزد جبکہ حماد صدیقی اور علی حسن قادری اشتہاری ہیں جبکہ کیس میں نامزدرؤف صدیقی اور دیگرملزمان ضمانت پررہا تھے۔

فروری 2017 میں اس کیس میں ایم کیو ایم رہنما رؤف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ کیس میں 768 گواہوں کے نام شامل ہیں، جن میں 400 سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔

گزشتہ سماعت پرعدالت نے ملزم علی حسن اورڈاکٹرعبد الستار کی درخواست پر22 ستمبر تک فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فیکٹری مالکان نے آتشزدگی کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا تھا۔ فروری2017 میں ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کیس میں ملزمان کے خلاف 400عینی شاہدین اور دیگر نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے ہیں۔

ایم کیوایم کارکن زبیر چریا اوردیگر ملزمان گرفتار ہیں جبکہ روف صدیقی نے ضمانت پر ہیں۔ گیارہ ستمبر2012 کو ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاون میں260افراد جل کر ہلاک ہوگئے تھے اور آٹھ سال بعد لواحقین کو آج انصاف ملنے کا امکان ہے۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی رینجرز پراسیکیوشن نے کی ہے۔ تین تفتیشی افسران تبدیل ہوچکے۔ 4 سیشن ججزنےسماعت سےمعذرت کرلی تھی جبکہ 6 سرکاری وکلا نےدھمکیوں کےباعث مقدمہ چھوڑ دیا تھا۔

کراچی میں بلدیہ ٹاؤن میں ٹیکسٹائل فیکٹری سانحہ کو آٹھ سال بیت گئے ہیں۔ اس اندوہناک واقعہ میں260 افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

واقعے کا مقدمہ پہلےسائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا، مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔

سنہ2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اورعبدالعزیزعدالتی اجازت کے بعد دبئی چلےگئے۔6 فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہےکہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔

آگ لگانےکی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ ملزم کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر آگ لگائی۔ 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔

سنہ 2016 میں جے آئی ٹی پر چالان ہوا۔ اسی سال دسمبر میں رحمان بھولا کو بینکاک سے گرفتارکیا گیا۔ کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پرکیس کو انسداد دہشتگردی میں چلایا گیا۔

جنوری 2019کو کیس کےمرکزی ملزم عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سےمکرگئے تھے۔ دوستمبر2020 کو گواہان کےبیانات اوروکلا کےدلائل مکمل ہونے پردہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بعد ازاں سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فیکڑی میں آتشزدگی کا واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔

عبدالرحمان بھولا نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔