شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹر کی من مانیوں پر تحفظات ہیں،صدر ایف پی سی سی آئی

196

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی ) کے صدر انجم نثار نے شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹر ز کی بڑھتی من مانیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک علیحدہ سے ادارہ قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو اس ضمن میں اگر ایف پی سی سی آئی کو عدالتی فریق بننا پڑا تو وہ تجارت و صنعت کے بہتر ترین مفاد میں فریق بننے سے گریز نہیں کرے گی ۔ یہ بات انہوں نے ایف پی سی سی آئی میں کسٹمز افسران ، شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹر ز کے نمائندوں کے ساتھ بلائے گئے اجلاس سے خطاب میں کہی ۔ اس موقع پر چیف کلکٹر انفورسمنٹ سائوتھ ڈاکٹر سیف الدین جونیجو، عمر شفیق ، ایڈشینل کلکٹر کسٹم (انفورسمنٹ )، ثاقف سعید ، کلکٹر کسٹم (پریونٹو) ، انجینئر ریاض احمد میمن کلکٹر کسٹم Appraisement (East)، جمیل ناصر خان کلکٹر کسٹم Appraisement (West)، فواد علی شاہ کلکٹر کسٹم ایکسپورٹ (PMBQ)، رضوان بشیر ، ایڈیشنل کلکٹر کسٹم ایکسپورٹ،ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر خرم اعجاز ، قائمہ کمیٹی برائے کسٹمز کے کنوئینر شبیر منشا ء چھرہ ، قائمہ کمیٹی برائے سیلز ٹیکس کے کنوینر ثاقب فیاض مگوں و دیگر بھی موجود تھے۔ایف پی سی سی آئی میں کسٹمز حکام ، شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز کے نمائندوں کے ساتھ بلائے گئے اجلاس میں انجم نثار نے چیف کلکٹر کسٹمز انفورسمنٹ سیف الدین جو نیجو کو شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز سے متعلق شکایات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمینل آپریٹرز کا کے پی ٹی میں یہ موقف ہوتا ہے کہ وہ محکمہ کسٹمز کے لائسنس ہولڈر ہیں مگر جب محکمہ کسٹمز نے کورونا وباء کے باعث لگنے والے لاک ڈائون کے دوران ڈیمرج اور ڈی ٹینشن میں چھوٹ دینے اور ٹائم پریڈ بڑھانے کی ہدایت کی تو انہوں نے احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔
اور دہرا موقف اختیار کیا محکمہ کسٹمز ان کو ریگولیٹ نہیں کر سکتا۔چیف کلکٹر کسٹمز انفور سمنٹ سیف الدین جو نیجو نے ایف پی سی سی آئی کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ کسٹمز اس حد تک ریگولیٹر کا کردار ادا کرتا ہے جو شپنگ کمپنیوں کے لیے لائسنس کے قوانین وضع کرتا ہے جبکہ ٹرمینل آپریٹر ز کو لائسنس جاری کرتا ہے مگر جب شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز کو ریگولیٹ کرنے کی بات آتی ہے تو وہ عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں ۔ چیف کلکٹر نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تجویز دی کہ ایف پی سی سی آئی ہر اس معاملے میں اپنا کردار اداکرنے کے لیے تیار ہے جس سے تجارت و صنعت کو فروغ حاصل ہواور ملکی معیشت مستحکم ہو سکے۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر خرم اعجاز نے کہا کہ ٹرمینل آپریٹرز کی کارکردگی دن بہ دن مزید خراب ہوتی جارہی ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کنٹینرز کی گرائونڈنگ میں 8 سے 9 دن لگا دیتے ہیں ۔ جب ہم ٹرمینل آپریٹرز سے اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے شپنگ کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بھارت کی وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کمپنیوں نے کورونا وباء کے پھیلائو کے دوران ریلیف فراہم کیا اس کے برعکس پاکستان شپنگ کمپنیاں کوئی حکم نہیں مانتیں ۔ ہم نے جب ریگولیشن بنانے کا کہا مگر شاید شپنگ کمپنیاں ملکی معیشت کی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ سارا معاملہ ایف بی آر پر چھوڑ دیتی ہیںاور جب ایف بی آر کوئی حکم نامہ جاری کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی عدالت سے حکم امتناعی لے لیا جاتا ہے ۔ یہاں وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اگر قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے تو وہ فوری طور پر کی جائے۔ایف پی سی سی آئی کی قائمہ کمیٹی برائے کسٹمز کے کنوینر شبیر منشاء چھرہ نے چیف کلکٹر کے تعاون کی یقین دہانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ کسٹمز ایف پی سی سی آئی کی تجاویز کی تائید کی مگر مسائل کے حل کے دوران قانون سازی میں پھنس جاتے ہیں جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ایسے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے شپنگ وٹرمینل آپریٹرز کو ریگولیٹ کیا جاسکے۔