اصل مسائل اے پی سی کی گرد میں غائب

745

توقع اور تجزیے کے عین مطابق آج کل پاکستان میں زیر بحث موضوع نمبر ایک آل پارٹیز کانفرنس اس کے مطالبات اور حکومت کے بیانات ہے ۔ ایک جانب اے پی سی کی کامیابی کا اعلان ہے تو دوسری جانب اے پی سی کے مطالبات کو احمقانہ باتیں کہا جا رہا ہے ۔ اے پی سی کی کامیابی یا انعقاد کرنے والے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت مزید کمزور ہو گئی ہے۔ اگر ان دونوں کے بیانات کا تجزیہ شروع کیا جائے تو نتیجہ وہی ہوگا جو یہ چاہتے ہیں یعنی اے پی سی پر بحث لیکن پاکستانی عوام کو ہو شیارکرنا ضروری ہے ۔ ایک بار پھر موضوع بدل گیا ہے ۔ ایک ماہ قبل پاکستان کا حساس ترین معاملہ سی پیک چیئر مین عاصم سلیم باجوہ اور ان کے اثاثے تھے پھر اچانک موضوع بدلا اور سانحہ لاہور پیش آ گیا ۔ ابھی سانحہ لاہور پر لاہور پولیس چیف کی بد تمیزی اور غیر انسانی بیان پر گرما گرمی جاری تھی کہ موضوع نواز شریف بن گئے ۔ کچھ ہی دنوں میں موضوع بدلا جو آج کل اے پی سی ہے ۔اور اب اے پی سی میںنوازشریف کی تقریر۔ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت ٹی وی چینلز پر اے پی سی کی کامیابی ناکامی وغیرہ کی بحثیں دیکھ دیکھ کر لطف اندوز اور گمراہ دونوں ہو رہی ہے ۔ کسی کے پاس فرصت ہی نہیں ہے کہ پچھلے ہفتے عشرے کی اہم ترین خبر پر کسی سے بات کر لے ۔ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے ۔ نیب کس کام میں مصروف ہے ۔ حکمرانوں کے اپنے کیا حالات ہیں ۔ عاصم سلیم باجوہ کا معاملہ نیب اور عدالت میں کیوں نہیں آیا ۔ سانحہ لاہور کے مجرموں کو48گھنٹے میں گرفتار کرنے کا حکم کہاں گیا ۔ یہ48گھنٹے کب سات دن میں تبدیل ہو گئے ۔ ملزم حقیقتاً ملزم ہے بھی یا نہیں۔ اب تو کسی بات پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ لیکن اب سانحہ لاہورپر بات کم کم ہو رہی ہے۔ جب وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ہو گا تو جواباً ایسا مطالبہ کرنے والوں کو احمق ہی کہا جائے گا اور احمق ہی توہیں کہ جن سے مطالبہ کر رہے ہیں ان ہی کو خرابیوں کا ذمے داربھی قرار دے رہے ہیں ۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ اپنے جج لگوانا چاہتے ہیں ۔ تو حکومت بتائے کہ وہ کیا چاہتی ہے کیا وہ اپوزیشن کے بتائے ہوئے جج لگائے گی۔ ہرگز نہیں حکومت اپنے جج لگانا چاہتی ہے ۔ جو حکومت میں آتا ہے وہ یہی چاہتا ہے ۔ اگر اپوزیشن پاپڑ ، فالودے والوں کے اکائونٹ میں اربوں روپے رکھنا چاہتی ہے تو حکومت بھی2 تین لاکھ ٹیکس دے کر ارب پتی شان و شوکت سے رہنے والوں کی ہے ۔ صرف چینی کی قیمت اوپر نیچے کر کے اربوں روپے کمانے والے حکومت کی صفوں میں توہیں ۔ فلاحی کام کر کے اربوں روپے کمانے والے حکومتی صفوں کے پیچھے ہی تو ہیں ۔ وہاں پاپڑ والے ہیں تو یہاں وائٹ کالر والے ۔غیر ملکی فنڈنگ کا کیس ہے کہ شروع ہو کر نہیں دیتا،شہباز شریف نواز شریف کے فائدہ کا پورا حساب لے لیا گیا۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت ہٹانے کا طریقہ اے پی سی سڑکوں پر احتجاج یا ہنگامے نہیں ہیں بلکہ اپوزیشن گزشتہ تین چار مواقع پر یہ نادر کام کرنے سے محروم رہ گئی ہے ۔ جب وزیر اعظم کا انتخاب ہورہا تھا ۔جب سینیٹ کے چیئر مین کا انتخاب تھا پھر بجٹ منظور ہو رہے تھے اور حال ہی میںایف اے ٹی ایف سمیت دیگر بلوں کی منظوری سے ۔ اگر اپوزیشن ہمت اور حکمت سے کام لیتی تو ان میں سے کسی بھی موقع پر عمران خان حکومت کو شکست دے سکتی تھی ۔ اب بھی ہنگاموں اور دھرنوں کا راستہ اختیار نہ کیا جائے قوم کے وسائل وقت اور جانیں قیمتی ہیں ۔ یقینا دبائو کے لیے جلسے جلوس ، مظاہرے دھرنے وغیرہ کام آتے ہیں لیکن اگر135دن کے دھرنے سے کچھ نہیںہوتا تو اب بھی نہیں ہو گا ۔ زیادہ دن نہیں ہیں چار چھ مہینے بعد بجٹ کی تیاری ہے اگر جنوری میں لانگ مارچ ہے تواستعفے دے کرلانگ مارچ کریں ۔ ورنہ مئی میں بجٹ کی منظوری میں حکومت کو شکست دے دیں ۔ اور اگر ہمت ہے اور اپنے لوگوں پر اعتماد ہے تو ابھی تحریک عدم اعتماد لے آئیں ۔ٹیسٹ کے طور پر اسپیکر کے خلاف تحریک لے آئیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کا یہ الزام حقائق سے زیادہ قریب ہے کہ اپوزیشن کے بڑے رہنما اپنے اثاثو ں، مقدما ت اور تحقیقات سے بچنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔اور یہی بات امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بار بار دہرائی ہے کہ اے پی سی میں شریک نہ ہونے کی ٹھوس وجوہات ہیں ، ہم بھی حکومت کے مخالف ہیں لیکن ن لیگ اور پی پی نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا ۔ وفاق کی پی ٹی آئی اور پی پی کی صوبائی حکومت نے کراچی کو مزید تباہ کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے یہ لوگ کراچی کے نام پر لڑ رہے ہیں اور عملاً اس شہر کے لیے کچھ نہیں کر رہے ۔ یہ وہی باتیں ہیں جو اپوزیشن کے بارے میں عام شہریوں کی زبان پر ہیں ۔ لوگوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ مسلم لیگ کے کہنے پر باہر نکلیں یا پیپلز پارٹی کے ۔ دونوں میں سے کسی ایک کو یہ دعویٰ ہو تو بتائے کہ اس میں وہ خرابیاں نہیں جو پی ٹی آئی میں ہیں۔ بلکہ المیہ تو یہی ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی میں ہیں ان ہی پارٹیوں کے لوگ ہیں ۔ یہ سب ایک گملے کی پنیری ہیں ان سے جان چھڑانا ہو گی ۔ یہ ہر دس دن بعد بحثوں کا نیاموضوع چھیڑتے ہیں تاکہ عوام اصل مسائل کی طرف توجہ نہ دے سکیں ۔ کہاں گئی تبدیلی،کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر، بیرون ملک سے چوری کا پیسہ کب آئے گا ۔ کشمیر کب پاکستان بنے گا ۔ عافیہ صدیقی کب پاکستان آئیں گی۔ پاکستان کب جاپان بنے گا ۔ باہر کے لوگ کب ملازمت کے لیے پاکستان آئیں گے ۔ ایسے خوفناک حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ لوگ خوفزدہ ہیں کہ کل کیا ہو گا اور حکمراں ہر خرابی کا ذمہ دار پچھلے حکمرانوں کو قرار دے کر جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ عوام کے لیے کوئی راہ فرار نہیں ، ایک طرف حکومت ہے جس سے اب اس کے حامی بھی نالاں ہو گئے ہیں ۔ دوسری طرف اپوزیشن ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی مسلط ہوئی ۔