وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ،جنوری میںلانگ مارچ کا اعلان

385

اسلام آباد( نمائندہ جسارت) اپوزیشن کی 11جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں وزیراعظم عمران خان سے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے اور جنوری میں فیصلہ کن لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔اسلام آباد میرٹ ہوٹل میں پیپلزپارٹی کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اے پی سی میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، مریم نواز، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جمعیت علما اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمن سمیت محمود اچکزئی، سینیٹر جمالدینی، محسن داوڑ، اویس نورانی، امیر حیدر خان ہوتی، آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور ساجد میر و دیگر اراکین نے بھی شرکت کی جبکہ جماعت اسلامی نے اس اے پی سی میں شرکت نہیں کی ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئے ۔اے پی سی کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے شہباز شریف اور بلاول سمیت دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اورایکشن پلان پیش کیا۔ان کاکہنا تھا کہ اکتوبر اور نومبر میں پہلے مرحلے میں ملک کے صوبائی دارالحکومتوں کراچی، کوئٹہ، پشاور اور لاہور) سیمیت دیگر بڑے شہروں میں مشترکہ جلسے کیے جائیں گے، دسمبر میں دوسرے مرحلے میں صوبائی دارالحکومتوں میں بڑی عوامی ریلیاں اور مظاہرے ہوں گے جب کہ جنوری 2021 ء میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ کیا جائے گا۔فضل الرحمن نے کہا کہ سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری ، سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کرے گی جس میں عدم اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن شامل ہے۔اپوزیشن کی جانب سے 4 صفحات کا اعلامیہ جاری کیاگیا جس کو ’کل جماعتی کانفرنس قرارداد‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس اعلامیے میں 26 نکات شامل ہیں۔اے پی سی کے بعد فضل الرحمن نے قرارداد میڈیا کے سامنے پڑھ کر سنائی جس کے مطابق قومی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ‘ تشکیل دیا گیا ہے، یہ اتحادی ڈھانچہ حکومت سے نجات کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم کرے گا۔قراداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ہر قسم کی مداخلت فوری طورپر بند کرے ، اسٹیبلشمنٹ کے تمام ادارے آئین کے تحت لیے گئے حلف اور متعین کر دہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں،ملک میں شفاف ،آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کاانعقاد یقینی بنایا جائے اس مقصد کے حصول کے لیے فی الفور انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو،1973ء کا آئین اٹھارہویں ترمیم اور وجودہ این ایف سی ایوارڈ قومی اتفاق رائے کامظہر ہیں ان پر حملوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا اور پوری قوت سے صوبائی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے گا اور ان پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، آج کے بعد ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی،عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی روشنی میں احتساب کا نیا قانون بنایا جائے اور ملک کے تمام اداروں اور افراد کا خواہ ان کا تعلق عدلیہ یا ڈیفنس سروسز ، یابیورو کریسی یا پارلیمان سے ہوایک ہی قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے،یہ سلیکٹڈ حکومت سقوط کشمیر کی ذمے دار ہے ، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں اور عالمی قانون کے منافی مودی سر کار کا عمل ، پاکستان کی موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔قبل ازیں اے پی سی سے وڈیو لنکخطاب میں سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے قائد نواز شریف نے کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران خان نہیں بلکہ انہیں اقتدار میں لانے والوں سے ہیجنہوں نے نااہل فردکو لا کر بٹھادیا۔ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی نے کہا تھا کہ ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے لیکن اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے،جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے اس کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشاندہی کرنے پر غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں اور ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مصلحت چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں،’جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بے باک فیصلے کریں، آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں،آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔ن لیگ کے قائد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو سازش سے اسے پہلے بے اثر اورپھر فارغ کردیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔نواز شریف نے کہاکہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی، کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا، یہ ٹرینڈ آصف زرداری نے سیٹ کیا ہے اسی کو لے کر جانا ہو گا،72 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے،حقوق پر ڈاکا ڈالنا سنگین جرم ہے، عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا جائے۔سابق وزیراعظم کے بقول عوام کی رائے پر جمہوریت کی بنیاد ہے، دنیا بھر میں یہی اصول ہے، جب جمہوریت کی بنیاد پر ضرب لگتی ہے تو سارا نظام جعلی ہو کر رہ جاتا ہے،ریاستی ڈھانچہ اس سے کمزور ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قت آگیا ہے کہ ان سوالوں کے جواب لیے جائیں، 2 وزیر اعظم موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کی رکاوٹیں ہوتی ہیں، ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کا وزیر اعظم یا صدر کو علم نہیں ہوتا،ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی ہوتی ہے، اکتوبر 2016ء میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا،ایک ٹویٹ میں ‘مسترد’ کا ٹائٹل دے دیا گیا، سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب چینی صدر کا دورہ منسوخ کرایا گیا، چین ہمارا دوست ہے، صدر شی جن پنگ کا کردار باعث تعریف ہے لیکن یہ منصوبہ نااہلی کا شکار ہو رہا ہے۔ن لیگ کے قائد نے کہاکہ سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ کبھی بسوں میں آگ تو کبھی بارش پول کھول دیتی ہے۔سابق وزیراعظم کے مطابق آمر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی، یہ اندھے حکومتی انتقام کا اعلیٰ کار بن چکا ہے، اس ادارے کے چیئرمین جاوید اقبال کی کارروائیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، نہ عمران خان کے کان پر کوئی جو رینگتی ہے۔نوازشریف نے کہا کہ بہت جلد ان سب کا یوم حساب آئے گا، عالمی ادارے اور ہماری عدالتیں اس کے کردار کو بیان کر چکی ہیں، یہ ادارہ اپنا جواز کھو چکا ہے، اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور گھر کی خواتین کے ساتھ نیب کے دفتروں اور جیلوں میں رْل رہے ہیں، نیب نہیں تو ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سینیٹ میں انتخابات سے قبل ایک سازش کی گئی جس کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت گِرا دی گئی۔نواز شریف نے چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اثاثوں پر سوال اٹھائے۔ ‘نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی احتساب نہ کوئی سزا۔ عمران خان نے بھی ان کے اثاثوں کا نہیں پوچھا اور ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔انہوں نے خطاب میں ملکی اداروں سے سوال کیا کہ کیا بنی گالہ کی فائل ایسے ہی بند رہے گی، ہم کب تک انتظار کریں گے، کیا ان لوگوں پر کوئی فوجداری مقدمہ درج نہیں ہو گا، عمران خان نے اربوں کے اثاثے رکھتے ہوئے بھی اتنا کم ٹیکس ادا کیا ہے، کیا نیب اس پر کوئی ایکشن نہیں لے گا؟کیا کچھ لوگ آگے بھی سزائیں پاتے رہیں گے اور کچھ لوگ ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ پاتے رہیں گے، کیا ہم ایسا پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں، میں تو کہوں گا کبھی بھی نہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایجنسیوں کی جانب سے لوگوں کو اٹھانا، میڈیا کے نمائندوں کو بے بنیاد مقدمات میں نامزد کر دینا کیا، یہ جمہوری معاشرے کی نشانیاں ہیں؟ ہم میڈیا پر کوئی قدغن منظور نہیں کریں گے،جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے ‘لڑاؤ اور حکومت کرو’ کی پالیسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سیاستدانوں کو بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا، یہ طریقہ آج بھی استعمال ہوتا ہے، محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں، وکلا، دانشوروں، میڈیا اور عدلیہ کے لیے بھی یہ طریقہ استعمال ہو رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی دونوں جج ایماندار ہیں اور انتقام کا شکار بن رہے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ یہاں ایماندار نہیں بلکہ ایسے لوگ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے ساتھ نظریہ ضرورت بنایا جائے، یہ تماشا آپ نے دیکھا ہے اور عوام کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی، جلا وطن اور سزا دے کر ان کے خاندان کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔نوازشریف نے یہ بھیکہا کہ کانفرنس کو جامع لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے، اس وقت اولین ترجیح اس نظام سے نجات حاصل کرنا ہے،یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نااہل اور ظالمانہ نظام ملک کو کمزور کر دے گا،ضروری ہے کہ مسلح افواج قائد اعظم کی تقریر کے مطابق سیاست سے دور رہیں، کسی کے کہنے پر وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو کر وزیر اعظم کو گرفتار نہ کریں وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ملک کو تماشا بنا دیا ہے۔سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اے پی سی جو بھی لائحہ عمل تشکیل دے گی مسلم لیگ ن اس میں بھرپور ساتھ دے گی اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی، ٹھوس اقدامات تجویز کیے جائیں، ہمارے کئی دوست جیلوں میں ہیں، ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔نواز شریف نے اپنے خطاب میں آصف زرداری کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان کی صحت کے لیے نیک تمنائیں بھی دی۔قبل ازیں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہ موجودہ حکومت کو گرا کر جمہوریت بحال کرکے دکھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ اے پی سی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی،جب سے ہم سیاست میں ہیں میڈیا پر اس طرح کی پابندیاں نہیں دیکھیں، چاہے کتنی ہی پابندیاں لگائی جائیں، لوگ ہمیں سن رہے ہیں، حکومت اے پی سی کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے یہی ہماری کامیابی ہے۔ان کا کہنا تھا کہبے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور پھر ہم آہنگی کے ذریعے مشرف کو بھیجا، 18 ویں ترمیم کے گرد ایک دیوار ہے جس سے کوئی بھی آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔زرداری نے کہاکہ بہروپیوں سے پاکستان کو بچانا ہے، سیاسی بونے، سلیکٹڈ وزیراعظم کی سوچ کو سمجھیں یہ ایک میجرکی سوچ ہے کہ 73 کا آئین بنانے والوں سے وہ زیادہ ہوشیار ہیں، اس اے پی سی میں ایسا لائحہ عمل دیں کہ جمہوریت مضبوط کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ اِس اے پی سی کے بعد جیل جانے والے وہ پہلے شخص ہوں گے، مولانا فضل الرحمن سے جیل میں ملاقات کے لیے آنے کی بھی فرمائش کی۔سابق صدر مملکت نے تقریر کا اختتام اس مصرعے پر کیا کہ ’مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں اس حکومت کو، اور ان کو لانے والوں کو سڑکوں پر للکارنا ہے، عوام کو اس مصیبت، عذاب سے نجات دلا کر رہیں گے۔قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت کا احتساب نہ کیا تویہ جرم ہو گا اور ہم اس کا حصہ بن جائیں گے، آج مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، کورونا آنے سے قبل معیشت کو ضرب لگ چکی تھی،سلیکٹڈ وزیراعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ آر ٹی ایس بند ہوا اس کی تحقیقات ہوں گی، اس پر ایوان کی کمیٹی قائم کی گئی لیکن دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی نے ایک انچ سفر نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ احتساب کے نام پر اندھا انتقام ہو رہا ہے، ان کو احتساب کرنا ہوتا تو سب سے پہلے کابینہ میں بیٹھے لوگوں کا کرتے۔